امیرالمؤمنین علیہ السلام کی شہادت پر جبرائیل کی فریاد


حضرت علی علیہ السّلام انیسویں رمضان المبارک کی شب اپنی بیٹی ام کلثوم سلام اللہ علیہا کے مہمان تھے؛ آپ (ع) کی حالت بہت عجیب تھی یہاں تک کہ ام کلثوم (س) بھی متعجب ہوئیں۔

مروی ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام اس رات جاگتے رہے اور متعدد بار کمرے سے باہر نکلتے اور فرمایا کرتے تھے کہ:
خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں کہتا اور مجھ سے جھوٹ نہیں بولا گیا یہی ہے وہ رات جس میں شہادت کا وعدہ دیا گیا ہے۔ (1)
بہر صورت امیرالمؤمنین علیہ السلام نماز فجر کے لئے کوفہ کی مسجد اعظم میں داخل ہوئے اور سوئے ہوئے افراد کو نماز کے لئے جگایا؛ ان ہی میں سے اس امت کا شقی ترین فرد "عبدالرحمن بن ملجم مرادی" بھی تھا جو الٹا سویا ہوا تھا جس کو امیرالمؤمنین علیہ السلام نے نماز کے لئے جگایا۔
آپ (ع) نماز میں مصروف ہوئے اور جب پہلی رکعت کے پہلے سجدے سے سر اٹھایا تو ابن ملجم کے دوسرے دہشت گرد ساتھی "شبیب بن بجرہ اشجعی" نے تلوار سے آپ (ع) کے سر کو نشانہ بنانا چاہا مگر اس کا وار محراب کے طاق پر جالگا اور ابن ملجم ملعون نے چلّا کر دوسرا وار کیا جو آپ کی پیشانی کو لگا جس سے آپ (ع) شدید زخمی ہوئے۔
تلوار امیرالمؤمنین علیہ السلام کی پیشای کے عین اسی مقام پر لگی جسے جنگ احزاب (غزوہ خندق) مین عمرو بن عبدود نے زخمی کردیا تھا۔
حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السّلام نے فرمایا:"بسم الله و بالله و علی ملْة رسول الله فزت و ربّ الکعبه" (2)
خدا کے نام سے اور خدا کے سہارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ملت پر؛ ربّ کعبہ کی قسم! مین کامیاب ہوگیا۔
لوگ چلائے کہ ضارب کو پکڑو۔ صدائیں بلند ہوئیں، کچھ لوگ محراب کی طرف دوڑے؛ اور کچھ عبدالرحمن اور شبیب کو پکڑنے کے لئے مسجد سے باہر نکلے؛ امیرالمؤمنین علیہ السلام محراب مسجد میں زمین پر گر پڑے تھے اور محراب کی مٹی اٹھا اٹھا کر اپنی پیشانی پر ڈالتے اور اس آیت کی تلاوت فرمارہے تھے:
«منها خلقناکم و فیها نعیدکم و منها نخرجکم تارة اخری»;(3)
ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور تمہیں مٹی کی طرف لوٹائیں گے اور ایک بار پھر تمہیں مٹی سے باہر لائیں گے۔
اور اس کے بعد فرمایا: "جأ امرالله و صدق رسول الله، هذا ما وعدنا الله و رسوله"۔
خدا کا فرمان آن پہنچا، اور سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہی وہ وعدہ تھا تو خدا اور اس کے رسول (ص) نے ہمیں دیا تھا۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے زخم کھایا تو زمین لرز اٹھی، سمندر طوفانی ہوگئے اور آسمان متزلزل ہوئے اور مسجد کے دروازے شدت ٹکرائے اور کالی آندھیاں چلیں جنہوں نے دنیا کو تیرہ و تار کردیا اور جبرائیل علیہ السلام کی فریاد آسمانوں اور زمین پر چھا گئی اور ہر شخص نے جبرائیل کو کہتے ہوئے سنا کہ:
تهدمت و الله اركان الهدی، و انطمست أعلام التّقی، و انفصمت العروة الوثقی، قُتل ابن عمّ المصطفی، قُتل الوصی المجتبی، قُتل علی المرتضی، قَتَله أشقی الْأشقیاء؛(4)
خدا کی قسم ہدایت کا رکن (ستون) ٹوٹ گیا، علم نبوت کے ستارے بجھ کر تاریک ہوگئے، اور پرہیزگاری کی علامتوں کو کو مٹا دیا گيا اور عروة الوثقی کو منقطع کیا گیا؛ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ابن عم کو قتل کیا گیا؛ برگزیدہ ترین وصی (سید الاوصیاء) قتل کئے گئے، علی مرتضی قتل کئے گئے اور آپ (ص) کو شقیوں میں سے زیادہ شقی (اور بدبخت ترین بدبخت یعنی عبدالرحمن ابن ملجم مرادی) نے قتل کردیا۔
.................

مآخذ:

1- منتہی الآمال، ج1، ص 172۔
2- بحارالانوار، ج 42، ص 281؛ منتہی الامال، ج 1، ص 126 – 127۔
3- سورہ طہ، آیہ 55۔
4- منتہی الآمال، ج1، ص 174۔