امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

تفسیرِ عشقِ حق قندیلِ حُسنِ ذوق سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا

1 ووٹ دیں 02.0 / 5


زمانہ جاہلیت میں عربوں کے نزدیک بیٹی کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھنا تو دور کی بات ہے ان کے حقیر اور ننگ و عار ہونے کا تصور اس طرح معاشرے میں رائج تھا کہ وہ بیٹیوں کو زندہ در گور کردیا کرتے تھے ۔ وہ پر آشوب دور جس میں ظلم و تشدد کا دور دورہ تھا جس میں انسانیت کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا جس زمانہ کے ضمیر فروش بے حیا انسان کے لبادہ میں حیوان صفت افراد انسان کو زندہ در گور کر کے فخر و مباہات کیا کرتے تھے جو عورت ذات کو ننگ و عار سمجھتے تھے یہ وہ تشدد آمیز ماحول تھا جس میں ہر سمت ظلم و ستم کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اسی تاریکی کو سپیدی سحر بخشنے کے لئے افق رسالت پر خورشید عصمت طلوع ہوا جس کی کرنوں نے نگاہ عالم کو خیرہ کر دیا اسی منجلاب میں ایک گلاب کھلا جس کی خوشبو نے مشام عالم کو معطر کر دیا ۔
ایک ایسے ماحول میں جناب فاطمہ زہرا (س) خانہ نبوت و رسالت کی زینت بنیں اور اپنے نور وجود سے انہوں نے نہ صرف رسول اسلام (ص) کا گھر بلکہ تاریخ بشریت کے بام و در روشن و منور کردئے اور خداوند تبارک و تعالی نے آپ کی شان میں سورہ کوثر نازل کردیا ۔ " اے نبی ! ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے " سورہ کوثر کے علاوہ جیسا کہ مفسرین و مورخین نے لکھاہے سورہ نور کی پنتیسویں آیت بھی آپ کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔
معصومہ عالم کا کردار ولادت سے شہادت تک اس قدر نورانی ، پر شکوہ اور جاذب قلب و نظر ہے کہ خود رسول اسلام(ص) نے کہ جن کی سیرت قرآن نے ہر مسلمان کے لئے اسوہ قرار دی ہے، جناب فاطمہ (س) کی حیات کو دنیا بھر کی عورتوں کے لئے ہر دور اور ہر زمانے میں سچا اسوہ اور نمونہ عمل قرار دیاہے ۔
ام المؤمنین عائشہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جتنی محبت اپنی بیٹی فاطمہ(س) سے کرتے تھے اتنی محبت کسی سے نہیں کرتے تھے سفر سے جب بھی پلٹٹے بڑی بیتابی اور اشتیاق کے ساتھ سب سے پہلے فاطمہ(س) کی احوال پرسی کرتے تھے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے جناب فاطمہ(س) کی تعریف کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا : خدانے فاطمہ کا نور زمین و آسمان کی خلقت سے بھی پہلے خلق کیا ، کسی نے سوال کیا : پس فاطمہ انسان کی جنس سے نہیں ہیں ؟! تو رسول اکرم (ص) نے جواب دیا : " فاطمہ انسانی لبادہ میں ایک حور ہیں "
فاطمہ سلام اللہ علہیا محمد و آل محمد کے گلستان کا وہ پھول تھیں جن کی تعظیم کو رسول کھڑے ہوجاتے تھے رسول کے جانے کے بعد جب بھی پیغمبر اسلام (ص) کی کوئی نشانی دیکھتی گریہ کرنے لگتی تھیں اور بے حال ہوجاتی تھیں ۔

ماں آفتابِ زیست ہے ماں ہفت آسماں
ماں بارشِ کرم ہے محبت کی کہکشاں
اس ایک لفظ میں سمٹ آئے زماں مکاں
ماں فاطمہ اگر ہو تو پھر عرش آستاں
دل اور زبان و ذہن میں کچھ فاصلہ نہ ہو
جو بھی لکھوں میں مولا وہ میرا کہا نہ ہو

 

حضرت فاطمہ سلام اللہ علہیا کا شجرہ مبارک

اسم مبارک : حضرت فاطمہ زھرا (ص)
کنیت : ام الحسن ، ام الحسین ، ام المحسن ، ام الائمہ و ام ابیھا
القاب : زہرا ، بتول ، صدیقہ ، کبری ، مبارکہ ، عذرہ ، طاہرہ ، سید النساء زہرا، سیدۃ النساء العلمین ، راضیۃ، مرضیۃ، شافعۃ ، زکیہ ، خیر النساء
والد : حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
والدہ : ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری
ولادت : 20 جمادی الاخر ، بعثت کے پانچویں سال بروز جمعہ
مقام ولادت : شہر مکہ معظمہ
وفات :3 جمادی الثانی 11 ھجری بروز پیر
مقام شہادت : شہر مدینہ منورہ

جبرائیل کی بشارت:

 "حضرت فاطمہ زہرا (ع) کی ولادت کے وقت رسول خدا (ص) نے جناب خدیجہ سے فرمایا : جبرائیل نے مجھے بشارت دی ہے کہ ہمارا یہ پیدا ہونے والا فرزند لڑکی ہے ، اور تمام آئمہ معصومین(ع) اسی کی نسل سے ہوں گے"

 

ولادت اور خاندان

 حضرت فاطمہ کی ولادت مکہ میں ہوئی۔ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ ان کی تاریخ پیدائش کے بارے میں اختلافات موجود ہیں۔ مختلف روایات ان کی ولادت کو 608ء سے لے کر 615ء تک بتاتی ہیں۔[4]۔ زیادہ مستند روایات یہ ہیں کہ آپ 20 جمادی الثانی بعثت کے پانچویں سال (615ء) کو بروز جمعہ صبح صادق کے وقت پیدا ہوئیں۔[5]۔ طبری نے بھی بعثت کا پانچواں سال لکھا ہے[6] [7]
ایک روایت کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر حضرت فاطمہ کو سونگھ کر کہتے تھے کہ اس خاتونِ جنت سے بہشت کی خوشبو آتی ہے کیونکہ یہ اس میوہ جنت سے پیدا ہوئی ہے جو جبرائیل نے مجھے شبِ معراج کھلایا تھا۔[8] [9] [10]۔
اس بارے میں بھی اختلافات موجود ہیں کہ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اکلوتی بیٹی تھیں یا نہیں۔ اس بارے میں تین قسم کی روایات ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جس میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی اور بہنیں تھیں جن کے نام زینب، رقیہ اور ام کلثوم تھا۔ دوسری قسم کی روایات کے مطابق یہ باقی بہنیں حضرت خدیجہ کی پہلی شادی سے تھیں جو حضرت خدیجہ کی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شادی کے بعد ان کی بیٹیاں بنیں۔ تیسری قسم کی روایات کے مطابق یہ حضرت خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹیاں تھیں جو اپنے والدین (ابولہند اور ہالہ) کے اختلافات کے بعد حضرت خدیجہ کی زیرِ کفالت آئیں اور بعد میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیٹیاں بن گئیں۔[11] ۔ یہ دوسری بہنیں جن کی بھی بیٹیاں تھیں، ان کا نکاح اسلام سے قبل مشرکین کے ساتھ ہوا۔ [12] جبکہ حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ ہجرت کے بعد مدینہ میں ہوا۔ حضرت فاطمہ کے بارے میں بے شمار احادیث ملتی ہیں جبکہ دوسری بہنوں کے بارے میں نہیں ملتیں۔
آپ کی تربیت خاندانِ رسالت میں ہوئی جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، حضرت خدیجہ ، حضرت فاطمہ بنت اسد، حضرت ام سلمیٰ، ام الفضل (حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا عباس کی زوجہ)، ام ہانی (حضرت ابوطالب کی ہمشیرہ)، اسما بنت عمیس (زوجہ حضرت جعفرالطیار)، صفیہ بنت حمزہ وغیرہ نے مختلف اوقات میں کی۔[13] حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی تربیت و پرورش کے لیے حضرت فاطمہ بنت اسد کا انتخاب کیا۔ جب ان کا بھی انتقال ہو گیا تو اس وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ام سلمیٰ کو ان کی تربیت کی ذمہ داری دی[14]

 

سیدۃ النساء العالمین کے القاب اور کنیت

 آپ کے مشہور القاب میں زھرا اور سیدۃ النساء العالمین (دنیا و جہاں کی عورتوں کی سردار اور بتول ہیں۔ مشہور کنیت ام الائمہ، ام السبطین اور ام الحسنین ہیں۔ آپ کا مشہور ترین لقب سیدۃ النساء العالمین ایک مشہور حدیث کی وجہ سے پڑا جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو بتایا کہ وہ دنیا اور آخرت میں عورتوں کی سیدہ ( سردار) ہیں۔ [15]۔ اس کے علاوہ خاتونِ جنت، الطاہرہ، الزکیہ، المرضیہ، السیدہ، العذراء وغیرہ بھی القاب کے طور پر ملتے ہیں۔ [16]
آپ کی مشہور کنیت ام الاآئمۃ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ہے، یعنی اپنے باپ کی ماں، یہ لقب اس بات کا ترجمان ہے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاہتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔
پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا . کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ھیں یعنی جڑ اور بنیاد ۔ لھذا اس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدا بھی ہے۔ کیونکر یہ آپ ھی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے رشد پایا، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا کو ابتریت کے طعنہ سے بچایا ۔

 

سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے والدین

آپ کےوالد ماجد ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی(ص) اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ بنت خولد ہیں۔ ھم اس باپ کی تعریف میں کیا کہیں جو ختم المرسلین، حبیب خدا اور منجی بشریت ھو ؟ کیا لکھیں اس باپ کی تعریف میں جسکے تمام اوصاف و کمالات لکھنے سے قلم عاجز ہو؟ فصحاء و بلغاء عالم، جس کے محاسن کی توصیف سے ششدر ہوں؟ اور آپ کی والدہ ماجدہ، جناب خدیجہ بنت خویلد جو قبل از اسلام قریش کی سب سے زیادہ باعفت اور نیک خاتون تھیں ۔ وہ عالم اسلام کی سب سے پہلی خاتون تھیں جو خورشید اسلام کے طلوع کے بعد حضرت محمد مصطفی(ص) پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال دنیا اسلام کو پروان چڑھانے کےلئے اپنے شوھر کے اختیار میں دے دیا ۔ تاریخ اسلام، حضرت خدیجہ(س) کی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ وفاداری اور جان و مال کی فداکاری کو ھرگز نھیں بھلا سکتی۔ جیسا کہ خود پیغمبر اسلام (ص) کے کردار سے ظاھر ھوتا ھے کہ جب تک آپ زندہ تھیں کوئی دوسری شادی نھیں کی اور ھمیشہ آپ کی عظمت کا قصیدہ پڑھا، عائشہ زوجہ پیغمبر(ص) فرماتی ھیں :
" ازواج رسول(ص) میں کوئی بھی حضرت خدیجہ کے مقام و احترام تک نہیں پہنچ پائی ۔ پیغمبر اسلام(ص) ہمیشہ انکا ذکر خیر کیا کرتے تھے اور اتنا احترام کہ گویا ازواج میں سے کوئی بھی ان جیسی نہیں تھی ۔"پھر عائشہ کہتی ھیں : میں نےایک دن پیغمبر اسلام(ص) سے کہا :
" وہ محض ایک بیوہ عورت تھیں" تو یہ سن کر پیغمبر اسلام(ص) اس قدر ناراض ھوئے کہ آپ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور پھر فرمایا :
"خدا کی قسم میرے لئے خدیجہ سے بہتر کوئی نھیں تھا ۔ جب سب لوگ کافر تھے تو وہ مجھ پر ایمان لائیں، جب سب لوگ مجھ سے رخ پھیر چکے تھے تو انہوں نے اپنی ساری دولت میرے حوالے کر دی ۔ خدا نے مجھے اس سے ایک ایسی بیٹی عطا کی کہ جو تقویٰ، عفت و طہارت کا نمونہ ہے ۔ "پھر عائشہ کہتی ہیں : میں یہ بات کہہ کر بہت شرمندہ ہوئی اور میں نے پیغمبر اسلام(ص) سے عرض کیا : اس بات سے میرا کوئی غلط مقصد نھیں تھا ۔
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ایسی والدہ اور والد کی آغوش پروردہ ہیں ۔

 

بچپن اور تربیت

 حضرت فاطمہ الزہرا کی ابتدائی تربیت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت خدیجہ نے کی۔ اس کے علاوہ ان کی تربیت میں اولین مسلمان خواتین شامل رہیں۔ بچپن میں ہی ان کی والدہ حضرت خدیجہ کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے اسلام کا ابتدائی زمانہ دیکھا اور وہ تمام تنگی برداشت کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابتدائی زمانہ میں قریش کے ہاتھوں برداشت کی۔ ایک روایت کے مطابق ایک دفعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کعبہ میں حالتِ سجدہ میں تھے جب ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے ان پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی۔ حضرت فاطمہ کو خبر ملی تو آپ نے آ کر ان کی کمر پانی سے دھوئی حالانکہ آپ اس وقت کم سن تھیں۔ اس وقت آپ روتی تھیں تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو کہتے جاتے تھے کہ اے جانِ پدر رو نہیں اللہ تیرے باپ کی مدد کرے گا۔[17]
ان کے بچپن ہی میں ہجرتِ مدینہ کا واقعہ ہوا۔ ربیع الاول میں 10 بعثت کو ہجرت ہوئی۔ مدینہ پہنچ کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زید بن حارثہ اور ابو رافع کو 500 درھم اور اونٹ دے کر مکہ سے حضرت فاطمہ، حضرت فاطمہ بنت اسد، حضرت سودہ اور حضرت عائشہ کو بلوایا چنانچہ وہ کچھ دن بعد مدینہ پہنچ گئیں۔[18] بعض دیگر روایات کے مطابق انہیں حضرت علی بعد میں لے کر آئے۔[19] 2 ہجری تک آپ حضرت فاطمہ بنت اسد کی زیرِ تربیت رہیں۔ 2ھ میں رسول اللہ نے حضرت ام سلمیٰ سے عقد کیا تو حضرت فاطمہ کو ان کی تربیت میں دے دیا۔[20]
حضرت ام سلمیٰ نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ کو میرے سپرد کیا گیا۔ میں نے انہیں ادب سکھانا چاہا مگر خدا کی قسم فاطمہ تو مجھ سے زیادہ مؤدب تھیں اور تمام باتیں مجھ سے بہتر جانتی تھیں۔[21] رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان سے بہت محبت کرتے تھے۔عمران بن حصین کی روایت ہے کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ حضرت فاطمہ جو ابھی کم سن تھیں تشریف لائیں۔ بھوک کی شدت سے ان کا رنگ متغیر ہو رہا تھا۔آنحضرت نے دیکھا تو کہا کہ بیٹی ادھر آؤ۔ جب آپ قریب آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا فرمائی کہ اے بھوکوں کو سیر کرنے والے پروردگار، اے پستی کو بلندی عطا کرنے والے، فاطمہ کے بھوک کی شدت کو ختم فرما دے۔ اس دعا کے بعد حضرت فاطمہ کے چہرے کی زردی مبدل بسرخی ہو گئی، چہرے پر خون دوڑنے لگا اور آپ ہشاش بشاش نظر آنے لگیں۔خود حضرت فاطمہ کا بیان ہے کہ اس کے بعد مجھے پھر کبھی بھوک کی شدت نے پریشان نہیں کیا۔ [22] [23]

 

شباہت و سیرت فاطمہ زہرا (س)

 جناب فاطمہ (س) نے نبوت و رسالت کے گھرانے میں پرورش پائی اور رسول اسلام (ص) کے علم و دانش سے بہرور ہوئیں رسول اکرم (ص) سے زبانی قرآن سنا اور اسے حفظ کیا اور خود سازی و حقیقی انسان بننے کی فکر میں مشغول ہو گئیں اپنے والد محترم اور قرآن سے بے حد محبت فرماتیں ، اپنے والد ماجد کے فیض بخش وجود سے استفادہ فرماتیں تھیں یہی وہ کمالات تھے جن کی بنا پر پیغمبر اسلام (ص) آپ کو بے حد چاہتے تھے ایک روز آپ کی زوجہ "عائشہ " نے آپ سے سوال کیا ، کیا آپ (ص) فاطمہ زہرا (ع) کو اتنا چاہتے ہیں کہ جب وہ آتی ہیں تو آپ تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے اپنے برابر میں جگہ دیتے ہیں ؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا : اے "عائشہ "اگر تمہیں یہ معلوم ہو جائے کہ میں فاطمہ (ع) کو کیوں دوست رکھتا ہوں تو تم بھی انہیں محبوب رکھو ۔
آپ فاطمہ (س) کو اپنا ٹکڑا سمجھتے تھے اور برابر ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ " فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے ستایا اور جس نے اسے راضی کیا اس نے مجھے خوش کیا " ایک روز پیغمبر اسلام ارشاد فرماتے ہیں " فاطمہ خدا تیری خوشنودی پر خوش ہوتا ہے اور تیری ناراضگی پر غضبناک ہوتا ہے " شباہت: فاطمہ زہرا (ص) صورت ، سیرت ، رفتار ، اور گفتار میں سب سے زیادہ اپنے پدر محترم سے مشابہ تھیں ، پیغمبر اسلام (ص) کی زوجہ ام سلمی فرماتی ہیں فاطمہ زہرا (ع) سب سے زیادہ رسول (ص) سے مشابہ تھیں

پہلی کریم ذات خدائے علیم ہے
پھر اُس کے بعد سب سے بڑی ماں کریم ہے
یہ ماں دکھوں کی دھوپ میں بادِ نسیم ہے
ماں میں بھی دیکھو حرفِ محبت کا میم ہے
انساں کی شخصیت کو نکھارے ہے ماں کی ذات
بچوں پہ اپنے سُکھ سبھی وارے ہے ماں کی ذات

 

رسول خدا صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی بیٹی فاطمہ (س) سے بے مثال محبت

باپ بیٹی کے درمیان یک طرفہ محبت نہیں تھی بلکہ حضرت فاطمہ زہرا (ص) رسول (ص) کی طرح اپنے والد ماجد سے محبت کرتی تھیں جناب خدیجہ کی وفات کے وقت آپ کی عمر چھ سال سے زیادہ نہ تھی ماں کے بعد گھر میں اپنے والد کے آرام و آسائش کو ہمیشہ مد نظر رکھتی تھیں فاطمہ وہ بیٹی تھیں کہ جو ہمیشہ اپنے باپ کے نقش قدم پر ثابت قدم رہیں شہر مکہ کی گلی کوچہ اور مسجد الحرام سب رسول (ص) کی توہین کرنے اور اذیت پہونچانے والوں سے بھرے ہوئے تھے جب بھی آپ کے پدر محترم زخمی ہو کر واپس آتے تو آپ ہی چہرہ اقدس سے خون صاف کرکے زخموں پر مرہم رکھتیں اور اپنی پیاری پیاری باتوں سے رسول کا حوصلہ بڑھاتی تھیں جب باپ اپنے وطن میں رہ کر مسافر ، اور اپنے میں بیگانہ ، اپنوں کے ہوتے ہوئے تنہا ، اپنی زبان بولنے والوں میں بے زبان ، ہر وقت جہل وبت پرستی سے بر سر پیکار ، تبلیغ کا سنگین بار اٹھانے میں یک و تنہا تھا تو فاطمہ (ص) ہی تو تھیں جو اپنی بے لوث محبت سے باپ کے دل کو شاد کرتی تھیں ، اور والد کی رسالت کو تسلیم کرکے ان کی امیدوں کو تقویت بخشتی تھیں یہی تو وجہ کہ پیغمبر فرماتے تھے " تمہارا باپ تم پر قربان ہو " یا یہ کہ " اپنے باپ کی ماں " کے لقب سے پکارتے تھے چونکہ آپ اپنے باپ کے لئے مثل ماں کے تھیں ۔

دریائے علم اجرِ رسالت ہیں فاطمہ
قرآن اختصار، فصاحت ہیں فاطمہ
محرومِ عدل، روحِ عدالت ہیں فاطمہ
اللہ کے نبی کی محبت ہیں فاطمہ
رازِ حیات بنتِ نبی کی حیات میں
ماں ایسی ہم نے دیکھی نہیں کائنات میں

 

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی شادی مبارک

 حضرت فاطمہ سے شادی کی خواہش کئی لوگوں نے کی جن میں سے کچھ پر رسول اللہ نے غضب ناک ہو کر منہ پھیر لیا۔[24]۔ طبقات ابن سعد وغیرہ کے مطابق حضرت ابوبکر نے اور بعد میں حضرت عمر نے اپنے لیے خواستگاری کی تو دونوں کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مجھے اس سلسلے میں وحیِ الٰہی کا انتظار ہے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت علی نے اسی خواہش کا اظہار کیا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبول کر لیا اور کہا 'مرحباً و اھلاً۔[25]۔[26]۔[27]۔[28]۔[29]۔ بعض روایات کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی سے فرمایا کہ اے علی خدا کا حکم ہے کہ میں فاطمہ کی شادی تم سے کر دوں۔ کیا تمہیں منظور ہے۔ انہوں نے کہا ہاں چنانچہ شادی ہو گئی۔[30] یہی روایت صحاح میں عبداللہ ابن مسعود، انس بن مالک اور حضرت ام سلمیٰ نے کی ہے۔ ایک اور روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کردوں۔[31]۔[32]
حضرت علی و فاطمہ کی شادی یکم ذی الحجہ 2ھ کو ہوئی۔[33] کچھ اور روایات کے مطابق امام محمد باقر و امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ نکاح رمضان میں اور رخصتی اسی سال ذی الحجہ میں ہوئی۔[34]۔ ۔شادی کے اخراجات کے لیے حضرت علی نے اپنی زرہ 500 درھم میں بیچ دی۔[35] یہ رقم حضرت علی نے رسول اللہ کے حوالے کر دی جو حضرت فاطمہ کا مہر قرار پایا۔ جبکہ بعض دیگر روایات میں مہر 480 درھم تھا۔[36]

 

شہزادی کونین کا جہیز

جہیز کے لیے رسول اللہ نے حضرت مقداد ابن اسود کو رقم دے کر اشیاء خریدنے کے لیے بھیجا اور حضرت سلمان فارسی اور حضرت بلال کو مدد کے لیے ساتھ بھیجا۔[37] انہوں نے چیزیں لا کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے رکھیں۔ اس وقت حضرت اسماء بنت عمیس بھی موجود تھیں۔ مختلف روایات میں جہیز کی فہرست میں ایک قمیص، ایک مقنع (یا خمار یعنی سر ڈھانکنے کے لیے کپڑا)، ایک سیاہ کمبل، کھجور کے پتوں سے بنا ہوا ایک بستر، موٹے ٹاٹ کے دو فرش، چار چھوٹے تکیے، ہاتھ کی چکی، کپڑے دھونے کے لیے تانبے کا ایک برتن، چمڑے کی مشک، پانی پینے کے لیے لکڑی کا ایک برتن(بادیہ)، کھجور کے پتوں کا ایک برتن جس پر مٹی پھیر دیتے ہیں، دو مٹی کے آبخورے، مٹی کی صراحی، زمین پر بچھانے کا ایک چمڑا، ایک سفید چادر اور ایک لوٹا شامل تھے۔ یہ مختصر جہیز دیکھ کر رسول اللہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ ان پر برکت نازل فرما جن کے اچھے سے اچھے برتن مٹی کے ہیں۔[38]۔[39]۔[40] یہ جہیز اسی رقم سے خریدا گیا تھا جو حضرت علی نے اپنی زرہ بیچ کر حاصل کی تھی۔[41]۔[42]۔[43]۔[44]

 

سیدہ النساء حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی رخصتی

 نکاح کے کچھ ماہ بعد یکم ذی الحجہ کو آپ کی رخصتی ہوئی۔ رخصتی کے جلوس میں حضرت فاطمہ اشہب نامی ناقہ پر سوار ہوئیں جس کے ساربان حضرت سلمان فارسی تھے۔ ازواج مطہرات جلوس کے آگے آگے تھیں۔ بنی ھاشم ننگی تلواریں لیے جلوس کے ساتھ تھے۔ مسجد کا طواف کرنے کے بعد حضرت فاطمہ کو حضرت علی کے گھر میں اتارا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی منگوایا اس پر دعائیں دم کیں اور علی و فاطمہ کے سر بازؤوں اور سینے پر چھڑک کر دعا کی کہ اے اللہ انہیں اور ان کی اولاد کو شیطان الرجیم سے تیری پناہ میں دیتا ہوں[45]۔ ازواج مطہرات نے جلوس کے آگے رجز پڑھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خاندان عبدالمطلب اور مہاجرین و انصار کی خواتین کو کہا کہ رجز پڑھیں خدا کی حمد و تکبیر کہیں اور کوئی ایسی بات نہ کہیں اور کریں جس سے خدا ناراض ہوتا ہو۔ بالترتیب حضرت ام سلمیٰ، حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ نے رجز پڑھے۔ ازواج مطہرات نے جو رجز پڑھے وہ اس طرح سے ہیں:

 

حضرت فاطمہ کی شادی میں ازواج مطہرات کے رجز[46]۔[47]۔[48]۔

حضرت ام سلمیٰ کا رجز

اے پڑوسنو چلو اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہے اور ہر حال میں اس کا شکر ادا کرو۔ اور جن پریشانیوں اور مصیبتوں کو دور کرکے اللہ نے احسان فرمایا ہے اسے یاد کرو۔ آسمانوں کے پروردگار نے ہمیں کفر کی تاریکیوں سے نکالا اور ہر طرح کا عیش و آرام دیا۔ اے پڑوسنو۔ چلو سیدہ زنانِ عالم کے ساتھ جن پر ان کی پھوپھیاں اور خالائیں نثار ہوں۔ اے عالی مرتبت پیغمبر کی بیٹی جسے اللہ نے وحی اور رسالت کے ذریعے سے تمام لوگوں پر فضیلت دی

 

حضرت عائشہ کا رجز

اے عورتو چادر اوڑھ لو اور یاد رکھو کہ یہ چیز مجمع میں اچھی سمجھی جاتی ہے۔ یاد رکھو اس پروردگار کو جس نے اپنے دوسرے شکر گذار بندوں کے ساتھ ہمیں بھی اپنے دینِ حق کے لیے مخصوص فرمایا۔ اللہ کی حمد اس کے فضل و کرم پر اور شکر ہے اس کا جو عزت و قدرت والا ہے۔ فاطمہ زھرا کو ساتھ لے کے چلو کہ اللہ نے ان کے ذکر کو بلند کیا ہے اور ان کے لیے ایک ایسے پاک و پاکیزہ مرد کو مخصوص کیا ہے جو ان ہی کے خاندان سے ہے

 

حضرت حفصہ کا رجز

اے فاطمہ تم عالم انسانیت کی تمام عورتوں سے بہتر ہو۔ تمہارا چہرہ چاند کی مثل ہے۔
تمہیں اللہ نے تمام دنیا پر فضیلت دی ہے۔ اس شخص کی فضیلت کے ساتھ جس کا فضل و شرف سورہ زمر کی آیتوں میں مذکور ہے۔ اللہ نے تمہاری تزویج ایک صاحب فضائل و مناقب نوجوان سے کی ہے یعنی علی سے جو تمام لوگوں سے بہتر ہے۔ پس اے میری پڑوسنو۔ فاطمہ کو لے کر چلو کیونکہ یہ ایک بڑی شان والے باپ کی عزت مآب بیٹی ہے ۔

 

جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خانہ داری

 بی بی سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں - جھاڑو دینا، کھانا پکانا , چرخہ چلانا , چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا ,یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ لیکن نہ توکبھی تیوریوں پر بل آئے نہ اپنے شوہر حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام سے کبھی اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی .
ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہرا کے نام سے مشہورہے .
34مرتبہ اللہ اکبر , 33 مرتبہ الحمد اللہ اور 33 مرتبہ سبحان اللہ
حضرت فاطمہ اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئیں کہ کنیز کی خواہش ترک کردی .۔ بعد میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بلاطلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشہور ہیں , جناب سیّدہ فضہ کے ساتھ ایک کنیز کا سا نہیں بلکہ ایک رفیق کا سا برتاؤ کرتی تھیں.
اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں . بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم عمل ہے .
اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا , گھر سے باہر کے تمام کام جیسے آب کشی کرنا , باغوں میں پانی دینا اور اپنی قوت ُ بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی بسر زندگی کا سامان کرنا یہ علی علیہ السّلام کے ذمہ تھے اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ انجام دیتی تھیں , یہ ضروری نہیں کہ آج چودہ سو برس کے بعد بھی کاموں کی شکل وہی رہے جو پہلے تھی زمانہ کی ضروتوں کے لحاظ سے ان میں فرق ہو سکتا ہے مگر اس روح کو جو گھر کے اندر اور باہر کی زندگی کے تفرقہ کے ساتھ قائم ہے ,محفوظ رکھا جانا ہر حال میں ضروری ہے.

بے شک امامِ صبر و قناعت ہیں فاطمہ
ہاں معدنِ متاعِ امامت ہیں فاطمہ
صلیٰ علیٰ نبی کی مودت ہیں فاطمہ
اطہر مزاج، شانِ طہارت ہیں فاطمہ
اس در سے بھیک مانگی ہے خیر جمال نے
پائی ہے پر ورش یاں محمد کی آل نے

 

فاطمہ زہرا سلام اللہ علہیا بحیثیت زوجہ

فاطمہ زہرا (س) بیاہ کر حضرت علی مرتضیٰ علیہ السلام کے بیت الشرف میں تشریف لے گئیں دوسرے روز رسول اکرم بیٹی اور داماد کی خیریت معلوم کرنے گئے ۔ علی (ع) سے سوال کیا یا علی تم نے فاطمہ کو کیسا پایا ؟ علی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ، یا رسول اللہ (ص) میں نے فاطمہ کو عبادت پروردگار میں بہترین معین و مددگار پایا ( کتاب بحار الانوار ج٤٣ )
علی سے جواب دریافت کرنے کے بعد رسول (ص) فاطمہ(س)کی طرف متوجہ ہوئے تو عجیب منظر نظر آیا ایک شب کی بیاہی بوسیدہ لباس پہنے بیٹھی ہے رسول نے سوال کیا بیٹی تمہارا لباس عروسی کیا ہوا بوسیدہ لباس کیوں پہن رکھا ہے ؟ فاطمہ(س) نے جواب دیا بابا میں نے آپ کے دہن مبارک سے یہ سنا ہے کہ راہ خدا میں عزیز ترین چیز قربان کرنی چاہئے بابا آج ایک سائل نے دروازہ پر آکر سوال کیا تھا مجھے سب سے زیادہ عزیز وہی لباس تھا بابا میں نے وہ لباس راہ خدا میں دیدیا ۔ حضرت فاطمہ(س) کا ساری عمر یہی درس دیا کہ خدا کو ہر حال میں یاد رکھنا چاہیئے اگر تمہارے پاس صرف دو لباس ہیں اور ان میں سے ایک زیادہ عزیز ہے تو اس لباس کو راہ خدا میں خیرات کر دو ۔
لاکھوں سلام ہو ہمارا اس شہزادی پر جس کا مہر ایک زرہ (جس کی ارزش پانچ سو درہم تھی ) اور ایک کتان کا بنا ہوا معمولی ترین لباس اور ایک رنگی ہوئی گوسفند کی کھال تھا ( وافی کتاب النکاح ) ۔ فاطمہ(س) کا یہ معمولی سا مہر خواتین عالم کو درس قناعت دے رہا ہے کہ جتنا بھی ملے اس پر شکر خدا کر کے راضی رہنا چاہئے یہی وجہ تھی کہ رسول اکرم (ص) فرمایا : میری امت کی بہترین خواتین وہ ہیں جن کا مہر کم ہو ( وافی کتاب النکاح )
مصحف ناطق امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرماتے ہیں : کسی خاتون کا مہر زیادہ ہونا باعث فضیلت نہیں قابل مذمت ہے بلکہ مہر کا کم ہونا باعث عزت و شرافت ہے ( وافی کتاب النکاح ) ۔

 

سیدہ النساء فاطمہ ز ہرا (س) بحیثیت ایک ماں

 چونکہ پروردگار عالم کا یہ مصمم ارادہ تھا کہ پیشوائے دین اور خلفائے رسول صدیقہ طاہرہ کی نسل سے ہوں اسی لئے آپ کی سب سے بڑی اور سخت ذمہ داری تربیت اولاد تھی ، تربیت اولادظاہر میں ایک مختصر سا جملہ ہے لیکن اس میں بہت مہم اور وسیع معنی مخفی ہیں ۔ تربیت صرف اسی کا نام نہیں ہے کہ اولاد کے لئے لوازم زندگی اور عیش و آرام فراہم کر دئے جائیں بلکہ اسلامی نقطہ نگاہ سے اولاد کا کسی عہدہ پر فائز ہونا بھی تربیت والدین کا مرہون منت ہے ۔
حضرت فاطمہ اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ انھیں اماموں کی پرورش کرنی ہے ایسے بچوں کی پرورش کرنی ہے کہ اگر اسلام صلح و آشتی سے محفوذظ رہتا ہے تو صلح کریں اگر اسلام کی حفاظت جنگ کے ذریعہ ہو رہی ہے تو جہاد فی سبیل اللہ کے لئے قیام کریں چاہے ظہر سے عصر تک بھرا گھر اجڑ جائے لیکن اسلام پر آنچ نہ آئے اگر اسلام ان کے گھر انہ کے برہنہ سر ہونے سے محفوظ رہتا ہے تو سر کی چادر کو عزیز نہ سمجھیں۔ دختر رسول بی بی فاطمہ (س) ھر کے ماحول کو بہت بڑا اور حساس گردانتی تھیں آپ کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی درسگاہ آغوش مادر تھی اس کے بعد گھر کا ماحول اور صحن خانہ بچوں کے لئے عظیم مدرسہ تھا ۔
حضرت فاطمہ زہرا(س) کو اللہ نے پانچ اولاد عطا فرمائیں جن میں سے تین لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں ۔ شادی کے بعد حضرت فاطمہ زہرا صرف نو برس زندہ رہیں ۔ اس نو برس میں شادی کے دوسرے سال حضرت امام حسن علیہ السّلام پیدا ہوئے اور تیسرے سال حضرت امام حسین علیہ السّلام . پھر غالباً پانچویں سال حضرت زینب اور ساتویں سال حضرت امِ کلثوم ۔ نویں سال جناب محسن علیہ السلام بطن میں تھے جب ہی وہ ناگوار مصائب پیش آئے جن کے سبب سے وہ دنیا میں تشریف نہ لا سکے اور بطن مادر میں ہی شہید ہو گئے۔ اس جسمانی صدمہ سے حضرت سیّدہ بھی جانبر نہ ہوسکیں .لہذا وفات کے وقت آپ نے دو صاحبزادوں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السّلام اور دو صاحبزادیوں زینب کبری و امِ کلثوم کو چھوڑا جو اپنے اوصاف کے لحاظ سے طبقہ خواتین میں اپنی ماں کی سچی جانشین ثابت ہوئیں .رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سیدنا حسن و حسین علیہ السلام کو اپنا بیٹا کہتے تھے اور بہت پیار کرتے تھے۔ اور فرمایا تھا کہ حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ ان کے نام بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود رکھے تھے۔

ماں آفتابِ زیست ہے ماں ہفت آسماں
ماں بارشِ کرم ہے محبت کی کہکشاں
اس ایک لفظ میں سمٹ آئے زماں مکاں
ماں فاطمہ اگر ہو تو پھر عرش آستاں
دل اور زبان و ذہن میں کچھ فاصلہ نہ ہو
جو بھی لکھوں میں مولا وہ میرا کہا نہ ہو

 

سیدہ النساء فاطمہ ز ہرا (س) کی شادی کے بعد کی زندگی

 آپ کی شادی کے بعد زنانِ قریش انہیں طعنے دیتی تھیں کہ ان کی شادی ایک فقیر (غریب) سے کردی گئی ہے۔ جس پر انہوں نے رسالت مآب سے شکایت کی تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمہ کا ہاتھ پکڑا اور تسلی دی کہ اے فاطمہ ایسا نہیں ہے بلکہ میں نے تیری شادی ایک ایسے شخص سے کی ہے جو اسلام میں سب سے اول، علم میں سب سے اکمل اور حلم میں سب سے افضل ہے۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ علی میرا بھائی ہے دنیا اور آخرت میں؟۔ یہ سن کر حضرت فاطمہ ہنسنے لگیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں اس پر راضی اور خوش ہوں۔[49]۔[50]
شادی کے بعد آپ کی زندگی طبقہ نسواں کے لیے ایک مثال ہے۔[51] آپ گھر کا تمام کام خود کرتی تھیں مگر کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں آیا نہ ہی کوئی مددگار یا کنیز کا تقاضا کیا۔ 7ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک کنیز عنایت کی جو حضرت فضہ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے ساتھ حضرت فاطمہ نے باریاں مقرر کی تھیں یعنی ایک دن وہ کام کرتی تھیں اور ایک دن حضرت فضہ کام کرتی تھیں۔ [52]۔[53][54] ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے گھر تشریف لائے اور دیکھا کہ آپ بچے کو گود میں لیے چکی پیس رہی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ایک کام فضہ کے حوالے کر دو۔ آپ نے جواب دیا کہ بابا جان آج فضہ کی باری کا دن نہیں ہے۔[55]
آپ کے حضرت علی سے بھی مثالی تعلقات تھے۔ کبھی ان سے کسی چیز کا تقاضا نہیں کیا۔ ایک دفعہ حضرت فاطمہ بیمار پڑیں تو حضرت علی نے پوچھا کہ کچھ کھانے کو دل چاہتا ہو تو بتاؤ۔ آپ نے کہا کہ میرے پدر بزرگوار نے تاکید کی ہے کہ میں آپ سے کسی چیز کا سوال نہ کروں، ممکن ہے کہ آپ اس کو پورا نہ کرسکیں اور آپ کو رنج ہو۔اس لیے میں کچھ نہیں کہتی۔ حضرت علی نے جب قسم دی تو انار کا ذکر کیا۔[56]
آپ نے کئی جنگیں دیکھیں جن میں حضرت علی نے نمایاں کردار ادا کیا مگر کبھی یہ نہیں چاہا کہ وہ جنگ میں شریک نہ ہوں اور بچے رہیں۔ اس کے علاوہ جنگ احد میں حضرت علی نے سولہ زخم کھائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا مگر آپ نے کسی خوف و ہراس کا مظاہرہ نہیں کیا اور مرہم پٹی، علاج اور تلواروں کی صفائی کے فرائض سرانجام دیے۔[57]

مریم سے جو سوا ہے فضیلت انہی کی ہے
کھائی قسم خُدا نے جو عصمت انہی کی ہے
یہ کربلا میں ساری ریاضت انہی کی ہے
اور روزِ حشر سچ ہے شفاعت انہی کی ہے
حق کا وہی شعار جو ان کا شعار ہے
ان کی رضا مشیعتِ پروردگار ہے

 

واقعہ مباہلہ

مباہلہ ایک مشہور واقعہ ہے اور ان چند واقعات میں سے ایک ہے جس میں حضرت فاطمہ کو جنگ کے علاوہ گھر سے نکلنا پڑا۔ نجران کے عیسائی جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملنے آئے اور بحث کی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں اور کسی طرح نہ مانے تو اللہ نے قرآن میں درج ذیل آیت نازل کی:
اے پیغمبر! علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ سورۃ آل عمران آیۃ 61
اس کے بعد مباہلہ کا فیصلہ ہوا کہ عیسائی اپنے برگزیدہ لوگوں کو لائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آیہ مباہلہ پر عمل کریں گے اور اسی طریقہ سے فیصلہ ہوگا۔ اگلی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے ساتھ حضرت حسن اور حضرت حسین کو چادر میں لپیٹے ہوئے حضرت علی اور حضرت فاطمہ کو لیے ہوئے آئے۔ ان لوگوں کو دیکھتے ہی عیسائی مغلوب ہو گئے اور ان کے سردار نے کہا کہ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر خدا سے بد دعا کریں تو روئے زمین پر ایک بھی عیسائی سلامت نہ رہ جائے گا۔[58]۔[59]۔[60]۔[61]

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ مرض الموت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نزدیک بلا کر ان کے کان میں کچھ کہا جس پر وہ رونے لگیں۔اس کے بعد آپ نے پھر سرگوشی کی تو آپ مسکرانے لگیں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پہلے میرے بابا نے اپنی موت کی خبر دی تو میں رونے لگی۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے میں ان سے جاملوں گی تو میں مسکرانے لگی۔[62]۔[63]۔[64]۔ ایک اور روایت میں یحیٰ بن جعدہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمہ سے کہا کہ سال میں صرف ایک مرتبہ قرآن مجھے دکھایا جاتا تھا۔ مگر اس دفعہ دو مرتبہ دکھایا گیا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ میری موت قریب ہے۔ میرے اہل میں سے تم مجھے سب سے پہلے آ کر ملو گی۔[65] یہ سن کر آپ غمگین ہوئیں تو رسول اللہ نے فرمایا کہ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم زنان اہلِ جنت کی سردار ہو؟ یہ سن کر آپ مسکرانے لگیں[66]۔[67]
آپ کے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ایک عظیم سانحہ تھا۔ اس نے حضرت فاطمہ کی زندگی تبدیل کر دی۔ آپ شب و روز گریہ کیا کرتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی میراث میں سے بھی انہیں بوجوہ کچھ نہ مل سکا جس سے مالی پریشانیاں بھی ہوئیں۔ مسئلہ فدک و خلافت بھی پیش آیا۔ اہلِ مدینہ ان کے رونے سے تنگ آئے تو حضرت علی نے ان کے لیے مدینہ سے کچھ فاصلے پر بندوبست کیا تاکہ وہ وہاں گریہ و زاری کیا کریں۔ اس جگہ کا نام بیت الحزن مشہور ہو گیا۔ اپنے والد کی وفات کے بعد آپ نے مرثیہ کہا جس کا ایک شعر کا ترجمہ ہے کہ
'اے ابا جان آپ کے بعد مجھ پر ایسی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دنوں پر پڑتیں تو وہ تاریک راتوں میں تبدیل ہو جاتے'۔[68]۔[69]۔ اس دوران مسئلہ فدک بھی پیش آیا ۔

 

مسئلہ باغ فدک

فدک ایک باغ تھا جو جنگ خیبر کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہبہ کیا گیا اور اس کے لیے مسلمانوں نے جنگ نہیں کی۔[97] ۔ شرعی لحاظ سے اسے مال فئی میں شامل کیا جاتا ہے یعنی ایسی جائیداد جس کے لیے مسلمانوں نے اونٹ اور گھوڑے نہیں دوڑائے اور جنگ نہیں کی۔[98]۔[99] اہل سنت و اہل تشیع کی اکثریت اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جائیداد مانتی ہے [100]۔[101]۔[102]۔[103]۔[104]۔[105]۔[106]۔[107]۔[108] لیکن ابن تیمیہ نے اس سے انکار کیا ہے۔[109]
صحیح مسلم میں حضرت ابوسعدی الخدری اور حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زندگی ہی میں فدک حضرت فاطمہ کو اس وقت ہبہ کر دیا جب سورہ حشر کی آیت 7 نازل ہوئی۔[110] دیگر تفاسیر میں سورہ حشر کی آیت 7 کی ذیل میں لکھا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فدک حضرت فاطمہ الزھراء کو ہبہ کر دیا۔[111]۔[112] شاہ عبدالعزیز نے فتاویٰ عزیزیہ میں اس بات کا اقرار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ الزھراء کو فدک سے محروم کرنا درست نہیں ہے۔[113] تاہم شاہ ولی اللہ اور ابن تیمیہ نے اس بات سے انکار کیا ہے۔[114]۔[115]
صحیح البخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد فدک کی ملکیت پر حضرت فاطمہ الزھراء اور حضرت ابوبکر میں اختلافات پیدا ہوئے۔ حضرت فاطمہ نے فدک پر اپنا حقِ ملکیت سمجھا جبکہ حضرت ابوبکر نے فیصلہ دیا کہ چونکہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی اس لیے فدک حکومت کی ملکیت میں جائے گا۔ اس پر حضرت فاطمہ حضرت ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور اپنی وفات تک ان سے کلام نہیں کیا۔ یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعد رات کو جنازہ پڑھایا گیا جس کے بارے میں حضرت ابوبکر کو خبر نہ کی گئی۔[116]۔[117]۔[118]
اہل سنت کی کچھ روایات کے مطابق حضرت ابوبکر نے بعد میں حضرت فاطمہ سے صلح کی کوشش جاری رکھی یہاں تک کہ وہ ان سے ناراض نہ رہیں۔[119]
اس سلسلے میں اہل سنت اور اہل تشیع میں اختلاف ہے۔ اہل سنت کے مطابق حضرت ابوبکر نے یہ فیصلہ ایک حدیث کی بنیاد پر دیا جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ انبیاء کے وارث نہیں ہوتے اور جو کچھ وہ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ جبکہ اہل تشیع کے مطابق یہ حدیث حضرت ابوبکر کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی اور یہ فیصلہ درست نہیں تھا کیونکہ قرآن کی کچھ آیات میں انبیاء کی وراثت کا ذکر ہے۔ اہل سنت اور اہل تشیع میں ایک اختلاف یہ بھی ہے کہ اہل سنت کے مطابق وفات تک حضرت فاطمہ حضرت ابوبکر سے ناراض نہ تھیں اور صلح ہو چکی تھی[120] جبکہ اہل تشیع کے مطابق وہ وفات تک ناراض تھیں اور انہوں نے وصیت کی تھی کہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں۔[121]
بیہقی[122] کے مطابق صلح ہوئی لیکن امام بخاری اور ابن ابی قیتبہ کے مطابق صلح نہ ہوئی اور حضرت فاطمہ نے تا زندگی حضرت ابوبکر و حضرت عمر سے کلام نہ کیا۔ جبکہ ابن ابی قیتبہ کے مطابق صلح کی کوششوں کے دوران حضرت فاطمہ نے ان دونوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں تازندگی نماز کے بعد تم دونوں پر بددعا کرتی رہوں گی۔ [123]۔[124]

 

مسجد نبوی میں فاطمہ زہرا (ع) کا تاریخ ساز خطبہ

 حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مسجد نبوی میں تاریخ ساز خطبہ شیعہ وسنی دونوں فریقوں نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے کہ جس کی سند کا سلسلہ زید بن علی تک پہچتا ہے ، اس طرح کہ انھوں نے اپنے پدر بزرگوار جد اعلیٰ سے نقل کیا ہے، اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد امام باقر علیہ السلام سے، نیز جابر جعفری نے حضرت امام باقر علیہ السلام سے نقل کیا، اسی طرح جناب عبد اللہ بن حسن نے اپنے والد امام حسن علیہ السلام سے، نیز زید بن علی نے زینب بنت علی علیہ السلام سے، اسی طرح خاندان بنی ھاشم کے بعض افراد نے زینب بنت علی علیہ السلام سے، نیز عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے ، یہ سب کہتے ہیں :
جس وقت ابوبکر نے خلافت کی باغ ڈور سنبھالی اور باغ فدک غصب کرلیا، جناب فاطمہ (س) کو خبر ملی کہ اس نے سرزمین فدک سے آپ کے نوکروں کو ہٹا کر اپنے کارندے معین کردئیے ہیں تو آپ نے چادر اٹھائی اور با پردہ ہاشمی خواتین کے جھرمٹ میں مسجد النبی (ص) کی طرف اس طرح چلی کہ نبی (ص) جیسی چال تھی اور چادر زمین پر خط دیتی جا رہی تھی۔
جب آپ مسجد میں وارد ہوئیں تو اس وقت جناب ابو بکر، مہاجرین و انصار اور دیگر مسلمانوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے، آپ پردے کے پیچھے جلوہ افروز ہوئیں اور رونے لگیں ۔ دختر رسول کو روتا دیکھ کر تمام لوگوں پر گریہ طاری ہوگیا، تسلی و تشفی دینے کے بعد مجمع کو خاموش کیا گیا، اور پھر جناب فاطمہ زہرا (س) نے مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
” تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے اپنی بے شمار اور بے انتہا نعمتوں سے نوازا، میں شکر بجالاتی ہوں اس کی ان توفیقات پرجو اس نے مجھے عطا کیں، اور خدا کی حمد و ثناء کرتی ہوں ان بے شمار نعمتوں پر جن کی کوئی انتہا نہیں، اور نہ ہی ان کا کوئی بدلا ہو سکتا ہے، ایسی نعمتیں جن کا تصور کرنا امکان سے باہر ہے، خدا چاہتا ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کی قدر کریں تاکہ وہ ہم پر اپنی نعمتوں کا اضافہ فرمائے، ہمیں شکر کی دعوت دی ہے تا کہ آخرت میں بھی وہ ایسے ہی اپنی نعمتوں کا نزول فرمائے ۔
میں خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہوں، وہ وحدہ لا شریک ہے، ایسی وحدانیت جس کی حقیقت اخلاص پر مبنی ہے اور جس کا مشاہدہ دل کی گہرائی سے ہو تا ہے اور اس کے حقیقی معنی پر غور و فکر کرنے سے دل و دماغ روشن ہوتے ہیں۔
وہ خدا جس کو آنکھ کے ذریعہ دیکھا نہیں جا سکتا، زبان کے ذریعہ اس کی تعریف و توصیف نھیں کی جا سکتی، جو وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا۔
وہ خدا جس نے ایسی ایسی موجوات خلق کی جن کی اس سے پہلے نہ کوئی نظیر ملتی ہے اور نہ کوئی مثال، اس نے اپنی مرضی ومشیت سے اس کائنات کو وجود بخشا بغیر اس کے کہ اسے اس کے وجود کی ضرورت ہو، یا اسے اس کا کوئی فائدہ پہنچتا ہو۔
بلکہ کائنات کواس نے اس لئے پیدا کیا تاکہ اپنے علم وحکمت کو ثابت کرسکے ،اپنی اطاعت کے لئے تیار کرسکے، اپنی طاقت وقدرت کا اظہار کرسکے، بندوں کواپنی عبادت کی تر غیب دلاسکے اور اپنی دعوت کی اہمیت جتاسکے؟
اس نے اپنی اطاعت پر جزاء اورنافرمانی پر سزامعین کی ہے، تاکہ اپنے بندوں کوعذاب سے نجات دے ، اورجنت کی طرف لے جائے۔
میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے پدر بزرگوار حضرت محمد، اللہ کے بندے اور رسول ہیں، ان کو پیغمبری پر مبعوث کرنے سے پہلے اللہ نے ان کو چنا، (اوران کے انتخاب سے پہلے ان کا نام محمد رکھا) اور بعثت سے پہلے ان کا انتخاب کیا، جس وقت مخلوقات عالم غیب میں پنہاں تھیں، نیست و نابودی کے پردوں میں چھپی تھیں اور عدم کی وادیوں میں تھیں ، چونکہ خداوندعالم ھر شہ کے مستقبل سے آگاہ زمانے کے حوادثات سے با خبر اور قضا و قدر سے مطلع ہے۔
خدا نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کومبعوث کیا تاکہ اپنے مقصد کو آگے بڑھائے، اپنے حتمی فیصلوں کو پایہٴ تکمیل تک پہنچائے اور لوگوں پر اپنی رحمت کو نازل کرے۔
(جب آپ مبعوث ہوئے ) تو لوگ مختلف ادیان میں بٹے ہوئے تھے ، کفر و الحاد کی آگ میں جل ر ہے تھے ، بتوں اور آگ کی پرستش کرر ہے تھے اورخدا کی شناخت کے بعد بھی اس کا انکار کیا کرتے تھے۔

 

سیدہ النساء فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کی شہادت

 آپ کی وفات کے بارے میں مؤرخین اور نتیجتاً اہل تشیع ، اہل سنت و اہل حدیث میں شدید اختلافات ہیں۔ مختلف تواریخ میں لکھے ہوئے واقعات درج زیل ہیں۔ ان کی صحت پر رائے قائم کرنا پڑھنے والوں پر محصر ہے۔
تواریخ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد کچھ لوگوں نے بشمول حضرت علی کے بیعت نہیں کی۔ حضرت علی گوشہ نشین ہو گئے اس پر حضرت ابو بکر صدیق رض کے کہنے پر حضرت عمر بن خطاب لوگوں کے ہمراہ آگ اور لکڑیاں لے کر دختر رسول اور داماد رسول کے گھر آئے اور کہا کہ گھر سے نکلو ورنہ ہم آگ لگا دیں گے۔ حضرت فاطمہ نے کہا کہ اس گھر میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے حسنین موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہونے دیں۔ [125]۔[126]۔[127]۔[128]۔[129]۔[130]
حضرت علی کے باہر نہ آنے پر گھر کو آگ لگا دی گئی۔ حضرت فاطمہ دوڑ کر دروازہ کے قریب آئیں اور کہا کہ ابھی تو میرے باپ کا کفن میلا نہ ہوا۔ یہ تم کیا کر رہے ہو۔ اس پر ان پر دروازہ گرا دیا اسی ضرب سے حضرت فاطمہ شہید ہوئیں۔[131]۔ کچھ روایات کے مطابق ان کے بطن میں محسن شہید ہوئے۔ ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ محسن کا ذکر کسی معتبر تاریخ میں نہیں اس لیے اس بات کو نہ ماننا چاہئیے۔ لیکن کچھ کتابوں میں یہ ذکر موجود ہے۔[132]۔
لوگ جب گھر میں گھسے تو حضرت فاطمہ نے کہا کہ خدا کی قسم گھرسے نکل جاؤ ورنہ سر کے بال کھول دوں گی اور خدا کی بارگاہ میں سخت فریاد کروں گی۔[133]۔
اس مکمل واقعہ کی روایت بشمول آگ لگانا اور دروازہ گرانے کے ابن قیتبہ، ابوالفداء، ابن عبدربہ وغیرہ نے بھی کی ہے۔[134]۔[135]۔[136]۔[137]۔
علامہ شبلی نعمانی نے ان واقعات کی صحت کی تصدیق کرتے ہوئےلکھا ہے کہ روایت کے مطابق اس واقعہ سے انکار کی کوئی وجہ نہیں اور حضرت عمر کی تندی اور تیز مزاجی سے یہ حرکت کچھ بعید نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نازک وقت میں حضرت عمر نے تیزی اور سرگرمی کے ساتھ جو کاروائیاں کیں ان میں گو بعض بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیں لیکن یاد رکھنا چاہئیے کہ انہی بے اعتدالیوں نے اٹھتے ہوئے فتنوں کو دبا دیا۔ بنو ھاشم کی سازشیں اگر قائم رہتیں تو اسی وقت جماعت کا شیرازہ بکھر جاتا اور وہی خانہ جنگیاں برپا ہو جاتیں تو آگے جا کر حضرت علی اور معاویہ بن ابی سفیان کے دور میں پیدا ہوئیں۔۔[138]۔
شاہ عبدالعزیز نے لکھا ہے کہ یہ قصہ افترا ہے اور اس کی کچھ اصل نہیں اگر جلانے کی دھمکی دی گئی تھی تو اس کا مقصد صرف ڈرانا تھا کیونکہ ایسے لوگ اس گھر میں پناہ لیے ہوئے تھے جو حضرت ابوبکر کی خلافت لوٹ پوٹ کرنے کے واسطے صلاح و مشورہ کرتے تھے۔ ۔ ۔ یہ فعل حضرت عمر سے مطابق فعل معصوم وقوع میں آیا (کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی ترک نماز کرنے والوں کے گھر کو آگ سے پھونکنے کی دھمکی دی تھی) اس لیے طعن کیوں ہو۔[139]
دختر رسول شہزادی کونین فاطمہ سلام اللہ علیہا کی 3 جمادی الاخر 11ھ کو شہادت ہوئی اور صحیحین کے مطابق حضرت فاطمہ کی وصیت کے مطابق انہیں رات کے وقت دفنایا گیا۔[140]۔[141] ۔
جنازے میں حضرت علی، حضرت حسن و حسین،حضرت عقیل ابن ابی طالب، حضرت سلمان فارسی، حضرت ابوذر غفاری، حضرت مقداد ابن اسود، حضرت عمار ابن یاسر اور حضرت بریدہ شریک تھے۔[142]۔
دیگر روایات میں حضرت حذیفہ یمانی، حضرت عباس، حضرت فضل، حضرت عبد اللہ ابن مسعود کا ذکر ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن زبیر کا ذکر بھی آتا ہے۔[143]۔
صحیح بخاری میں درج ہے کہ حضرت فاطمہ نے وصیت کی تھی کہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں۔[144]۔
کچھ اور جگہ آتا ہے کہ حضرت فاطمہ نے فرمایا کہ ان میں سے کوئی جنازے میں نہ آئے جن سے میں ناراض ہوں۔[145]۔[146]۔
اکثر اور مشہور روایات کے مطابق جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔[147]۔ چالیس دیگر قبریں بھی بنائی گئیں تاکہ اصل قبر کا پتہ نہ چل سکے۔[148]۔ آپ کے روضے مبارک کو سعودی حکومت نے 8 شوال 1344ھ کو ڈھا دیا۔[70]
کچھ روایات کے مطابق گھر میں دفن ہوئیں۔ جب حضرت عمر ابن عبدالعزیز نے مسجد نبوی کی توسیع کی تو گھر مسجد میں شامل ہو گیا۔[149]

 

سیدہ حضرت فاطمہ زھرا (س) کا اخلاق و کردار

 تاریخ کے آئینے میں حضرت فاطمہ زہرا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جود و سخا، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوہر حضرت علی(ع) کے لئے ایک دلسوز، مہربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔ آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاہلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں ۔ آپ نےشادی سے پہلے کی 9 سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور 4 سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوہر بزرگوار علی مرتضیٰ(ع) کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گزارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گزرتا تھا ۔ فاطمہ(س) اس خاتون کا نام ہے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجود کے ذرات میں گھل مل چکا تھا ۔

 

سیدہ حضرت  فاطمہ (س) کا نظام عمل

حضرت فاطمہ زہرا نے شادی کے بعد جس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں ۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا ۔ یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اور نہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی۔ اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں . بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم عمل ہے . اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے خرچ کا سامان مہیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا انجام دیتی تھیں۔

چکی کا پیسنا بھی عبادت بتول کی
قرآں کی آیتوں میں صداقت بتول کی
ہے طاعتِ رسول اطاعت بتول کی
کام آئی کربلا میں ریاضت بتول کی
چوکھٹ پہ ان کی سجدے کوجھکتا ہے آسماں
رُک جائیں گر یہ چلتے میں رُکتا ہے آسماں
حضرت زہرا سلام اللہ علہیا کا پردہ

سیدہ عالم نہ صرف اپنی سیرت زندگی بلکہ اقوال سے بھی خواتین کے لیے پردہ کی اہمیت پر بہت زور دیتی تھیں. آپ کا مکان مسجدِ رسولِ سے بالکل متصل تھا۔ لیکن آپ کبھی برقع وچارد میں نہاں ہو کر بھی اپنے والدِ بزرگوار کے پیچھے نماز جماعت پڑھنے یا اپ کا وعظ سننے کے لیے مسجد میں تشریف نہیں لائیں بلکہ اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے جب وہ مسجد سے واپس آتے تھے اکثر رسول کے خطبے کے مضامین سن لیا کرتی تھیں . ایک مرتبہ پیغمبر نے منبر پر یہ سوال پیش کر دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے یہ بات سیدہ کو معلوم ہوئی تو آپ نے جواب دیا عورت کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی نظر اس پر پڑے ۔ رسول کے سامنے یہ جواب پیش ہوا تو حضرت نے فرمایا . "کیوں نہ ہو فاطمہ میرا ہی ایک ٹکڑا ہے۔"

پردے کو اہلبیت سے عظمت عطا ہوئی
اس گھر کو ہر قدم پہ شہادت عطا ہوئی
عصمت عطا ہوئی ہے طہارت عطا ہوئی
اس در پہ چاند تاروں کو عزت عطا ہوئی
احسان ہے حجاب یہ زہرا کی آل کا
چادر بھی کام دیتی ہے اِک رُخ سے ڈھال کا

 

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہااور جہاد

اسلام میں عورتوں کا جہاد، مردوں کے جہاد سے مختلف ہے۔ لٰہذا حضرت فاطمہ زہرا نے کبھی میدانِ جنگ میں قدم نہیں رکھا ۔ لیکن جب کبھی پیغمبر میدان جنگ سے زخمی ہو کر پلٹتے تو سیدہ عالم ان کے زخموں کو دھوتیں تھیں .اور جب علی علیہ السّلام خون آلود تلوار لے کر آتے تو فاطمہ اسے دہو کر پاک کرتی تھیں۔ وہ اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ ان کا جہاد یہی ہے جسے وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں رہ کے کرتی ہیں . ہاں صرف ایک موقع پر حضرت زہرا نصرت اسلام کے لئے گھر سے باہر آئیں اور وہ تھا مباہلے کا موقع۔ کیونکہ یہ ایک پرامن مقابلہ تھا اور اس میں صرف روحانی فتح کا سوال تھا۔ یعنی صرف مباہلہ کا میدان ایسا تھا جہاں سیدہ عالم خدا کے حکم سے برقع و چادر میں نہاں ہو کر اپنے باپ اور شوہر کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں۔

یہ کربلا ہے دنیا کی ماؤں کا انتخاب
اس کربلا کی شان ہے اک ماں کا انقلاب
عاشور میں زمین پر اُترا جو آفتاب
کُملا کے جیسے رہ گئے فردوس کے گلاب
چہرے کو شیر خوار کے دیکھا رباب نے
ڈالی نگہ فلک پہ وہاں آں جناب نے

 

جناب فاطمہ کی معنوی شخصیت

 تمام عورتوں کی سردار، حضرت فاطمہ کی معنوی شخصیت ہمارے ادراک اور ہماری توصیف سے بالاتر ہیں۔ یہ عظیم خاتون کہ جو معصومین (ع) کے زمرہ میں آتی ہیں ان کی اور ان کے خاندان کی محبت و ولایت دینی فریضہ ہے ۔ اور ان کاغصہ اور ناراضگی خدا کا غضب اور اسکی ناراضگی شمار ہوتی ہے (20) ۔
آپ کے بارے میں تاریخ رقم کرتی ہے
1۔ پیغمبراکرم (ص) نے فرمایا : جبرئیل نازل ہوئے اورانہوں نے بشارت دی کہ '' ... حسن (ع) و حسین (ع) جوانان جنّت کے سردار ہیں اور فاطمہ (ع) جنّت کی عورتوں کی سردار ہیں ۔ (21)
2۔ آنحضرت (ص) نے فرمایا: دنیا کی سب سے برتر چار عورتیں ہیں : مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ دختر محمد (ص) اور آسیہ دختر مزاحم ( فرعون کی بیوی) (22)
3۔ آپ (ص) نے یہ بھی فرمایا: '' خدا ، فاطمہ کی ناراضگی سے ناراض اور ان کی خوشی سے خوشنود ہوتا ہے'' ۔ (23)
4۔ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: '' اگر خدا ،امیرالمؤمنین کوخلق نہ کرتا تو روئے زمین پر آپ کا کوئی کفو نہ ہوتا '' ۔ (24)
5۔ امام جعفر صادق ۔سے سوال ہوا کہ : '' حضرت فاطمہ کا نام'' زہرا'' یعنی درخشندہ کیوں ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ : '' جب آپ محراب میں عبادت کے لئے کھڑی ہوتی تھیں تو آپ کا نور اہل آسمان کو اسی طرح چمکتا ہوا دکھائی دیتا تھا کہ جس طرح ستاروں کا نور ،زمین والوں کے لئے جگمگاتا ہے ۔ (25)

صفدر دو رب کو ماں کی محبت کا واسطہ
بنتِ نبی کی عفت وعصمت کا واسطہ
اُن کے کرم کا رحمت و عظمت کا واسطہ
اصغر سے شیر خوار کی تُربت کا واسطہ
یہ مرثیہ بھی بنتِ نبی کو قبول ہو
ہر ماں کی قبر پر تری رحمت نزول ہو

 

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی حکمت عملی

 نبی اکرم(ص) کی بیٹی نے دو پہلوؤں سے اپنی جد و جہد شروع کی، ایک طرف اسلامی حقائق سے پردہ اٹھا کر " ولایت" کے حقیقی مفہوم و مطالب سے لوگوں کو آشنا بنایا اور ہوشیار و خبردار کیا، دوسری طرف وہ عظیم خطرات جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے دہن کھولے کھڑے تھے پوری وضاحت کے ساتھ گوش زد کئے ۔ اس راہ میں، جناب فاطمہ زہرا(س) نے جو اپنے مقام و مرتبے سے اچھی طرح واقف تھیں، بھرپور فائدہ اٹھایا ۔
تاریخ اسلام نے دختر رسول کا جو کردار اپنے دامن میں محفوظ رکھا اور دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اگر اس طرح سے آپ میدان عملی میں نہ اترتیں گھر پر ہجوم کرنے والوں سے احتجاج نہ کرتیں، پہلو شکستہ نہ ہوتا اور سردربار، مسجد النبی میں جا کر اپنا وہ آتشیں خطبہ نہ دئے ہوتیں اور تمام مردوں اور عورتوں پر حقائق روشن و آشکار نہ فرماتیں تو کیا صورت حال پیش آتی ؟! دراصل علی ابن ابی طالب کی حقانیت و مظلومیت، حتی قریب ترین دوستوں پر بھی تشنہ تشریح رہ جاتی ۔ بہت سے تاریخی حقائق پردہ خفاء میں رہ جاتے اور بہت سے چہرے " صحابیت " اور " خطائے اجتہادی " کی مانند اصطلاحات کے اندر گم ہوگئے ہوتے ۔

 

سیدہ النساء بی بی فاطمہ زہرا محافظ دین و ولایت

 مدینہ ظلمت شب کی نذر ہوچکا ہے، مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت خواب غفلت میں پڑی آرام کی نیند سورہی ہے رات کا وحشت انگیز سناٹا داماد رسول(ص) کے لبوں کی جنبش پر کان لگائے ہوئے ہے وہ کہ جن کو ان کے گھر میں اکیلا کردیا گیا ہے جو شہر میں بھی تنہا ہیں اور گھر میں بھی ۔ رسول اسلام(ص) کی جدائی اور ان کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کا درد فراق سینے پر لئے کسی پہاڑ کی مانند فاطمہ(س)کی تربت پر بیٹھے ہوئے، غمگین و افسردہ تاریکی شب سے زمزمہ کررہے ہیں ۔ لگتا ہے الفاظ علی(ع) کا ساتھ چھوڑتے جارہے ہیں، لبوں کی جنبش ایک طویل سکوت میں تبدیل ہوجاتی ہے قبر فاطمہ(س) سے اٹھتے ہیں اور نسیم نیمہ شب کے جھونکوں کے سہارے چند قدم بڑھاتے ہیں اور پھر قبر رسول(ص) پر بیٹھ جاتے ہیں :
خدا کے رسول ! میری طرف سے اور اپنی بیٹی کی طرف سے، جو آپ کے شوق دیدار میں مجھ سے جدا ہوکر زیرخاک آپ کے بقعہ نور میں پہنچ چکی ہے، سلام قبول کیجئے ۔ خدا نے کتنا جلدی اس کو آپ کے پاس پہنچا دیا، اے خدا کے رسول ! آپ کی چہیتی کے فراق نے میرا صبر مجھ سے چھین لیا اور میرے بس میں آپ کی پیروی کے سوا جو میں نے آپ کی جدائی میں تحمل کی ہے، کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ میں نے جس وقت آپ کو آپ کی لحد میں آرام کے لئے لٹایا تھا آپ کی مقدس روح میرے گلے اور سینے کے درمیان سے نکلی ہے(جی ہاں! قبض روح کے وقت آپ کا سر مبارک میرے سینے سے لگا ہواتھا) خدا کی کتاب کے یہ کلمے کس قدر صبر آزما ہیں: انّا للہ و انا الیہ راجعون ۔ یقینا" امانت مجھ سے واپس لیلی گئی اور زہرا(س)میرے ہاتھوں سے چھین لی گئی ہیں ۔
اے خدا کے رسول! اب یہ نیلگوں آسمان اور خاکی زمین کس قدر پست نظر آنے لگی ہے میرا غم، غم جاوداں بن گیا ہے، راتیں اب جاگ کر بسر ہوں گی اور میرا غم، دل میں ہمیشہ باقی رہے گا یہاں تک کہ وہ گھرجہاں آپ مقیم ہیں خدا میرے لئے بھی قرار دیدے۔ میرا رنج دل کو خون کردینے والا اور میرا اندوہ(دماغ کو) مشتعل کردینے والا ہے ۔ کس قدر جلد ہمارے درمیان جدائی پڑگئی، میں اپنا شکوہ صرف اپنے خدا کے حوالے کرتا ہوں، اس بیٹی سے پوچھئے گا وہ بتائیں گی کیونکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دل کے درد آگ کی مانند سینے میں شعلہ ور ہوتے ہیں اور دنیا کے سامنے اس کے کہنے اور شرح کرنے کی راہ نظر نہیں آتی لیکن اب وہ کہیں گی اور خدا انصاف کرے گا جو بہترین انصاف کرنے والاہے ۔
دختر رسول حضرت زہرا(س)کی دوسری حکمت عملی کہ جس کا تقریبا" سبھی مورخین نے ذکر کیا ہے یہ تھی کہ آپ فراق پیغمبر میں بہت زیادہ گریہ کیا کرتی تھیں یہاں تک کہ " بکائین تاریخ " میں آپ کا نام بھی شامل ہے وہ زہرا(س)جو بچپن میں ماں کے سایہ شفقت سے محرومی کے بعد صبر و بردباری کا مجسمہ نظر آتی ہیں آخر باپ کی رحلت کے بعد اس بیتابی کے ساتھ نالہ و شیون کرنا کسی مصلحت سے خالی کیسے کیا جاسکتا ہے ؟ یقینا" دختر رسول(ص)کا گریہ، اپنے باپ کی امت کو ہوشیار و بیدار کرنے کی غرض سے تھا، باپ کے فراق میں کیا جانے والا یہ گریہ، اس سے بھی بڑی مصیبتوں کے بیان و اظہار کا ذریعہ بن گیا تھا، باپ کی جدائی کے ضمن میں ہی دختر رسول(ص)امت اسلامیہ کو درپیش خطرات سے انہیں آگاہ فرماتیں ۔ شاید اسی لئے کبھی باپ کی قبر پر، کبھی شہدائے احد کے سرہانے اور کبھی بقیع میں جا کر رویا کرتی تھیں کیونکہ یہ مسلمانوں کے اجتماعی مراکز تھے ۔ اور شاید اسی حساسیت کے تحت علی ابن ابی طالب سے شکایت کی گئی تھی کہ " فاطمہ کو رونے سے منع کیجئے ان کے رونے سے ہمارے کاموں میں خلل پڑتا ہے " حتی وہ درخت کہ جس کے نیچے بیٹھ کر آپ بقیع کے قریب رویا کرتی تھیں کٹوا دیا گیا کہ یہ سلسلہ بند ہوجائے ۔

 

فاطمہ زہرا (س) عالم کے لئے نمونہ عمل

 ایسے ماحول میں دختر رحمت العالمین نے تشریف لا کر اس جاہل معاشرہ کو یہ سمجھا دیا کہ ایک لڑکی باپ کے لئے کبھی بھی سبب زحمت نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ رحمت ہوتی ہے لیکن وہ حقیقت فراموش اس حقیقت کو بھلا بیٹھے تھے کہ جو وجہ خلقت انسان ہے وہ بھی ایک عورت ہے فاطمہ زہرا (س) دنیا میں کیا آئیں معاشرہ عرب میں ایک انقلاب برپا ہو گیا ۔ جو معاشرہ بیٹی کا وجود اپنے اوپر بار سمجھتا تھا وہ معاشرہ آج بیٹی کو سر کا تاج شمار کرنے لگا جو سماج کل تک بیٹی کو منجلاب گرا دانتا تھا وہ سماج آج بیٹی کو گلاب سمجھنے لگا گویا کہ کل انسان تاریکی میں تھا فاطمہ کی آمد نے اس کی تاریکی کو تنویر سے بدل دیا اور زیادہ وضاحت کے لئے اس طرح تعبیر کیا جائے کہ فاطمہ زھرا (س) باغ رسالت کا وہ تنہا ترین پھول ہے جس کی نظیر نا ممکن ہے پروردگار نے مردوں کی ہدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو روئے زمین پر بھیجا نبوت کے بعد سلسلہ امامت جاری کیا۔
چونکہ عرب کے بددئوں کو عورت کی قدر و منزلت معلوم نہیں تھی اسی عدم علمی کی بنیاد پر عورت کو ہر وراثت سے محروم کر دیا گیا اور جعلی حدیث لا کر خرافاتیاں شروع کر دیں کہ رسول اکرم (س) کا فرمان ہے : نحن معاشر الانبیاء لا نورث ولا نورث
ہم گروہ انبیاء نہ تو کسی کو وارث بناتے ہیں نہ کسی کے وارث بنتے ہیں لیکن دختر رسول نے باغ فدک کے مسئلہ میں قیام کر کے یہ سمجھا دیا کہ اسلام نے عورت کو بھی وراثت سے محروم نہیں رکھا بلکہ اسلام میں عورت کا حق ہے اور ایک مقام ہے چونکہ فاطمہ زہرا(س)نے رسول اکرم(س)کے دہن مبارک سے یہ فرماتے ہوئے سنا تھا ۔ ۔۔
یا فاطمہ ان اللہ تعالیٰ امر نی ان ادفع الیک فدک … اے ( میری بیٹی ) فاطمہ مجھے پروردگار عالم نے حکم دیا ہے کہ میں باغ فدک تمہیں بخش دوں ۔
اب دنیا چاہے وراثت کے سلسلہ میں چاہے کتنی ہی حدیثیں گڑھتی رہے ۔
فاطمہ زہرا (س) رسول (س) سے اس قدر محبت و شفقت سے پیش آتی تھیں کہ رسول (س) فرماتے نظر آئے : فاطمہ ام ابیھا : فاطمہ اپنے باپ کی ماں ہے رسول بے جب فاطمہ میں ماں والی شفقت دیکھی توماں کہہ دیا یا شاید اسی وجہ سے رسول (س) فاطمہ کی تعظیم کیا کرتے تھے اب اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہتی چونکہ ماں کی تعظیم واجب ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ یہاں ایک سوال سر اٹھائے کہ رسول نے فاطمہ کو ماں جو کہا ہے وہ مجاز کہا ہے حقیقت میں ماں تو نہیں بن گئیں ؟ بیٹی ہی رہینگی اور بیٹی پر باپ کا احترام واجب ہوتا ہے نہ کہ باپ پر بیٹی کا اور یہاں منظر بالکل بر عکس نظر آرہا ہے اس جگہ پر آپ کا اعتراض بالکل صحیح ہے چونکہ منظر واقعاً بر عکس ہے تو سن لیجئے نہ تو رسول فاطمہ کی عزت بیٹی کی حیثیت سے کرتے تھے نہ ماں کہنے کی وجہ سے احترام کرتے تھے بلکہ رسالت تعظیم عصمت کے لئے کھڑی ہوتی تھی رسول اسلام فاطمہ(س)کی توصیف میں گویا ہیں ( کتاب بشارت المصطفیٰ ) اب کلام رسول کی توجیہہ کسی بھی طرح کر لیجئے یا تو کہئے بیٹی تھیں اسی وجہ سے عزیز تھیں یا بمطابق قول رسول ماں کی حیثیت سے عزیز تھیں دوسری جگہ ارشاد فرمایا : فاطمہ کا غم و غصہ خدا کا غیظ و غضب ہے اور فاطمہ کی خوشی خوشنودی خدا ہے ( کتاب کنز العمال )
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبراسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں
سیدہ عالم کی فضیلت میں پیغمبر کی اتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ جتنی حضرت علی علیہ السّلام کے سوا کسی دوسری شخصیت کے لیے نہیں ملتیں .
ان میں سے اکثر علماء اسلام میں متفقہ حیثیت رکھتی ہیں . مثل
" آپ بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔ "
" ایما ن لانے والی عوتوں کی سردار ہیں ."
" تما م جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں "
" آپ کی رضا سے اللہ راضی ہوتا ہے اور آپ کی ناراضگی سےاللہ ناراض ہوتا ہے "
" جس نے آپ کو ایذا دی اس نے رسول کو ایذا دی"

 

حضرت فاطمہ کے بارے میں مشہور احادیث

 1. حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ایک فرشتہ جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ اترا تھا اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرنے حاضر ہو اور یہ خوشخبری دے کہ فاطمہ اہلِ جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہے اور حسن و حسین جنت کے تمام جوانوں کے سردار ہیں۔[71]۔[72]۔[73]۔[74]۔[75]

2. حضرت مسور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: فاطمہ میری جان کا حصہ ہے پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔[76]۔[77]۔[78]۔[79]۔[80]

3. حضرت عبداللہ بن زبیر بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: بے شک فاطمہ میری جان کا حصہ ہے۔ اسے تکلیف دینے والی چیز مجھے تکلیف دیتی ہے اور اسے مشقت میں ڈالنے والا مجھے مشقت میں ڈالتا ہے۔[81]۔[82]۔[83]۔[84]

4. حضرت ابو حنظلہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: بے شک فاطمہ میری جان کا حصہ ہے۔ جس نے اسے ستایا اس نے مجھے ستایا۔[85]۔[86]۔[87]۔[88]

5۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو فرما کر سفر پر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ ہوتیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ ہوتیں۔[89]۔[90]۔[91]

6. . ایک اور مشہور حدیث (جو حدیث کساء کے نام سے معروف ہے) کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک یمنی چادر کے نیچے حضرت فاطمہ، حضرت علی و حسن و حسین کو اکٹھا کیا اور فرمایا کہ بے شک اللہ چاہتا ہے کہ اے میرے اہل بیت تجھ سے رجس کو دور کرے اور ایسے پاک کرے جیسا پاک کرنے کا حق ہے[92]۔[93]۔[94]۔[95]۔[96]

 

سیدہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علہیا کی وصیتیں

 حضرت فاطمہ زہرا(س) نے خواتین کے لیے پردے کی اہمیت کو اس وقت بھی ظاہر کیا جب آپ دنیا سے رخصت ہونے والی تھیں . اس طرح کہ آپ ایک دن غیر معمولی فکر مند نظر آئیں . آپ کی چچی(جعفر طیار(رض) کی بیوہ) اسماء بنتِ عمیس نے سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے جنازہ کے اٹھانے کا یہ دستور اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ عورت کی میّت کو بھی تختہ پر اٹھایا جاتا ہے جس سے اس کا قدوقامت نظر آتا ہے . اسما(رض) نے کہا کہ میں نے ملک حبشہ میں ایک طریقہ جنازہ اٹھانے کا دیکھا ہے وہ غالباً آپ کو پسند ہو. اسکے بعد انھوں نے تابوت کی ایک شکل بنا کر دکھائی اس پر سیّدہ عالم بہت خوش ہوئیں
اور پیغمبر کے بعد صرف ایک موقع ایسا تھا کہ اپ کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی چنانچہ آپ نے وصیّت فرمائی کہ آپ کو اسی طرح کے تابوت میں اٹھایا جائے . مورخین تصریح کرتے ہیں کہ سب سے پہلا جسد مبارک جو تابوت میں اٹھا ہے وہ حضرت فاطمہ زہرا کاتھا ۔ ا سکے علاوہ آپ نے یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ آپ کا جنازہ شب کی تاریکی میں اٹھایا جائے اور ان لوگوں کو اطلاع نہ دی جائے جن کے طرزعمل نے میرے دل میں زخم پیدا کر دئے ہیں ۔ سیدہ ان لوگوں سے انتہائی ناراضگی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔

 

سیدہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علہیا کی احادیث مبارک

 1. ” اگر روزہ دار حالت روزہ میں اپنی زبان ، اپنے کان و آنکھ اور دیگر اعضاء کی حفاظت نہ کرے تو اس کا روزہ اس کے لئے فائدہ مند نہیں ہے “۔

2.” اے علی مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ آپ سے ایسی چیز کی فرمائش کروں جو آپ کی قدرت سے باہر ہے “

3.” ماں کے پیروں سے لپٹے رھو اس لئے کہ جنت انھیں کے پیروں کے نیچے ھے “۔

4.” عورتوں کے لئے خیر و صلاح اس میں ھے کہ نہ تو وہ نا محرم مردوں کو دیکھیں اور نہ نامحرم مرد ان کو دیکھیں “۔

”5. میرے نزدیک تمہاری اس دنیا میں تین چیزیں محبوب ہیں: تلاوت قرآن مجید ، زیارت چھرہ رسول خدا ، اور راہ خدا میں انفاق “

6.” ہر وہ شخص جو اپنے خالصانہ عمل کو خداوند عالم کی بارگاہ میں پیش کرتا ھے خدا بھی اپنی بہترین مصلحت اس کے حق میں قرار دیتا ہے “۔

7. ”آداب دسترخوان میں بارہ چیزیں لازم ہیں ،جن کا علم ھر مسلمان کو ہونا چاھئے۔ ان میں سے چار چیزیں واجب ،چار مستحب اور چار رعایت ِادب کے لئے ہیں۔
وہ چار چیزیں جو لازم ہیں وہ یہ ہیں: معرفت ، خوشنودی، شکر اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کہنا ۔
وہ چار چیزیں جو مستحب ہیں وہ یہ ہیں : کھانے سے پہلے وضو کرنا ،ب ائیں جانب بیٹھنا ،تین انگلیوں سے کھانا اور کھانے کو انگلیوں سے ملانا۔
اور وہ چار چیزیں جو رعایت ِ ادب میں شامل ہیں وہ یہ ہیں: جو بھی سامنے آئے اسے کھانا ، لقمہ چھوٹا ہونا، خوب چبا کر کھانا اور لوگوں کے چہرہ پر زیادہ نگاہ نہ کرنا “۔
8. ماں کے پیروں سے لپٹے رہو اس لئے کہ جنت انہیں کے پیروں کے نیچے ہے

الفت ہے ماں کی الفتِ خالق کی جستجو
اسکا مزاج صرف محبت کی گفتگو
انسانیت کی نسل کی ماں قوتِ نمو
اولاد صرف ماں کی دعا سے ہے سرخرو
موضوع ملا ہے مادرِ حسنین سے مجھے
عزت ملی ہے خالقِ کونین سے مجھے

( مضمون کی تیاری کے لئے اشعار محترم المقام جناب صفدر ہمدانی کے لکھے ہوئے طویل مرثیے “ معراج ساری ماؤں کی بنتِ رسول ہے “ سے لئے گئے ہیں )

 

حوالہ جات

1 ^ انسائکلوپیڈیا آف اسلام
2 ^ صحیح بخاری 5:54:325
3 ^ انسائکلوپیڈیا آف اسلام
4^ انسائکلوپیڈیا بریٹانیکا
5 ^ مودۃ القربیِ از سید علی ابن شہاب ہمدانی صفحہ 63
6 ^ دلائل الامامت از محمد بن جریر الطبری
7^ بحار الانوار از علامہ باقر مجلسی
8 ^ روضۃ الصفاء از محمد ابن خاوند شاہ
9^ وسیلۃ النجات از مولوی مبین الحنفی فرنگی محلی
10 ^ روضۃ الاحباب از جمال الدین محدث
11 ^ مرجاء الانس از علامہ معتمد بدخشانی
12 ^ مروج الذہب از مسعودی جلد 2 صفحہ 298 طبع مصر
13^ مدارج النبوۃ
14 ^ سوانح فاطمۃ الزھرا از مضفر علی خان، الہ آباد، 1968ء
15^ صحیح البخاری 4:56:819
16^ سیرت فاطمہ الزھرا از سلطان مرزا دہلوی
17^ سیرت النبی از علامہ شبلی نعمانی صفحہ 186
18^ چودہ ستارے از علامہ ذیشان حیدر جوادی
19^ سیرت فاطمہ الزھرا از سلطان مرزا دہلوی
20^ چودہ ستارے از علامہ ذیشان حیدر جوادی
21 ^ دلائل الامامۃ از محمد ابن جریر الطبری
22^ بحار الانوار از علامہ باقر مجلسی
23^ الخرائج والجرائح از قطب الدین راوندی 573ھ
24^ کنز العمال جلد 7 صفحہ 113
25^ طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 11 و 12
26^ البدایۃ والنہایۃ از ابن کثیر
27^ تاریخ الخمیس از حسین دیار بکری جلد اول صفحہ 407 و 408
28^ اسد الغابہ از ابن اثیر الجزری طبع بیروت
29^ سیرت فاطمہ الزھرا از سلطان مرزا دہلوی
30^ ریاض النظرۃ از محب الدین طبری جلد 2 صفحہ 184 طبع مصر
31^ المعجم الکبیر از طبرانی 10:156
32^ تذکرۃ الخواص از ابن جوزی (روایت از حضرت عبداللہ بن بریدہ)
33 ^ چودہ ستارے از علامہ ذیشان حیدر جوادی
34^ بحار الانوار از علامہ باقر مجلسی
35^ مناقب ابن شہر آشوب جلد 4 صفحہ 14
36^ الستیعاب از حافظ ابن عبدالبر
37 ^ بحار الانوار از علامہ باقر مجلسی
38^ مسند احمد بن حنبل
39^ المستدرک الحاکم
40^ سنن نسائی
41^ المستدرک الحاکم
42^ مناقب ابن شہر آشوب
43^ کتاب السنن لسعید بن منصور
44^ کشف الغمہ لعلی بن عیسیٰ اربیلی
45^ الصواعق المحرقہ از ابن حجر عسقلانی
46^ سیرت فاطمہ الزھرا از سلطان مرزا دہلوی
47^ بحار الانوار از علامہ مجلسی
48^ اعیان الشیعہ جز الثانی صفحہ 501
49^ مناقب ابن شہر آشوب
50^ بحارالانوار صفحہ 172
51 ^ سیدہ کی عظمت از مولانا کوثر نیازی صفحہ 5
52^ سیدہ کی عظمت از مولانا کوثر نیازی صفحہ 5
53^ چودہ ستارے از ذیشان حیدر جوادی صفحہ 96
54 ^ نقوش عصمت از ذیشان حیدر جوادی صفحہ 168
55 ^ مناقب ابن شہر آشوب
56^ ریاحین الشریعہ از ذبیح اللہ محلاتی
57^ نقوش عصمت از ذیشان حیدر جوادی صفحہ 168
58^ تفسیر ابن کثیر صفحہ 438 تفسیر سورہ آل عمران
59^ سیرت ابن اسحاق (بیان تفسیر ابن کثیر میں)
60^ نقوش عصمت از ذیشان حیدر جوادی
61^ تفسیر بیضاوی صفحہ 74
62^ صحیح البخاری
63^ صحیح مسلم
64^ مسند احمد بن حنبل
65^ تاریخ طبری از علامہ ابی جعفر محمد بن جریر الطبری متوفی 310ھ
66 ^ تاریخ بلاذری
67^ کشف الغمہ جلد 2 صفحہ 8
68^ نور الابصار صفحہ 46
69^ مدارج النبوۃ جلد 2 صفحہ 524
70^ نقوش عصمت از ذیشان حیدر جوادی
71 ^ ترمذی، الجامع الصحیح۔ 607۔5 رقم 3781
72^ مسند احمد بن حنبل۶ 391۔۔5
73^ المعجم الکبیر از طبرانی رقم 1005
74 ^ المستدرک۔ الحاکم رقم 4721،4722
75 ^ صحیح البخاری، کتاب المناقب (یہ حصہ کہ حضرت فاطمہ اہلِ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں)
76 ^ صحیح البخاری 3:1361 رقم 3510
77^ صحیح البخاری 3:1374 رقم 3556
78^ صحیح مسلم 4:1903 رقم 2449
79^ الاصابہ فی تمیز الصحابہ از ابن عحر عسقلانی 8:56
80^ 22:404المعجم الکبیر از طبرانی
81^ ترمذی، الجامع الصحیح۔ 5:698
82^ مسند احمد بن عنبل 4:5
83 ^ حاکم، المستدرک 3:173
84^ فتح الباری از ابن حجر عسقلانی 9:329
85^ تمسند احمد بن حنبل 4:5
86 ^ مسند احمد بن عنبل فضائل الصحابہ 2:755
87^ السنن الکبریٰ از بیہقی 10:201
88^ المعجم الکبیر از طبرانی 22:405
89^ سنن ابی داوود 4:87
90^ مسند احمد بن عنبل 5:275
91^ السنن الکبریٰ از بیہقی 1:26
92 ^ صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ الجز السابع صفحہ 13 حدیث 6261
93^ منہاج السنہ از ابن تیمیہ الجز الثالث صفحہ 4
94^ مسند احمد بن حنبل جز الاول صفحہ 331 ، جز الثالث صفحہ 385، جز الرابع صفحہ 51
95^ تفسیر در منثور از جلال الدین سیوطی الجز الخامس صفحہ 198۔199
96^ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب از ابن عبد البر الجز الثانی
97^ سیرت رسول اللہ از ابن اسحاق
98^ تفسیر کبیر از فخر الدین رازی
99^ تفسیر مراغی از مصطفیٰ المراغی در تفسیر سورہ حشر
100^ تفسیر کبیر از فخر الدین رازی تفسیر سورہ حشر آیت 7
101^ فتوح البلدان از احمد ابن یحییٰ البلاذری
102^ معجم البلدان از یاقوت الحماوی الرومی صفحہ 139 جلد 14
103^ تاریخ طبری صفحہ 1583 جلد 3
104 ^ تاریخ الکامل از ابن اثیر جلد 2 صفحہ 108
105 ^ تاریخ خمیس از حسین دیار بکری
106^ وفاءالوفاء از علی ابن احمد السمھودی
107^ سیرت رسول اللہ معروف بہ سیرت ابن ھشام از ابو محمد عبدالمالک ابن ھشام
108 ^ تاریخ ابوالفداء از ابوالفداء ملک حماہ
109^ منہاج السنہ از ابن تیمیہ
110^ در المنثور از جلال الدین سیوطی جلد 4 صفحہ 177
111^ معراج النبوۃ از عبدالحق دہلوی متوفی 1642ء صفحہ 228 جلد 4 باب 10
112^ حبیب السیار از غیاث الدین محمد خواندامیر
113^ فتاویٰ عزیزیہ از شاہ عبدالعزیز
114^ قرۃ العین از شاہ ولی اللہ
115^ منہاج السنہ از ابن تیمیہ
116^ صحیح بخاری 59۔546
117^ صحیح البخاری جلد 4 53۔325
118^ صحیح بخاری اردو ترجمہ از مولانا داؤود مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند جلد 5 حدیث 4240۔4241
119^ سنن کبریٰ از بیہقی جلد 6 صفحہ 300
120^ سنن کبریٰ از بیہقی جلد 6 صفحہ 300
121^ صحیح البخاری جلد 4 53۔326
122^ سنن کبریٰ از بیہقی جلد 6 صفحہ 300
123^ صحیح بخاری اردو ترجمہ از مولانا داؤود مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند جلد 5 حدیث 4240۔4241
124^ الامامت و السیاست از ابن ابی قیتبہ جلد 14
125^ تاریخ طبری از ابن جریر الطبری
126^ مصنف ابن ابی شیبہ
127^ ، مروج الذہب از علامہ مسعودی
128^ الاستیعاب از ابن عبد البر صفحہ 345 در ذکر ابوبکر بن ابی قحافہ
129^ ، ازالۃ الخفاء از شاہ ولی اللہ
130^ منتخب کنز العمال از حاشیہ مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 174 مطبوعہ مصر
131^ مدارج النبوۃ رکن 4 باب 3 صفحہ 42 از عبدالحق دہلوی
132^ روائح المصطفیٰ از مولوی صدر الدین حنفی صفحہ 28
133^ تاریخ یعقوبی جلد 2 صفحہ 116
134^ الامامت والسیاست از ابو محمد عبد اللہ بن مسلم قیتبہ متوفی 276ھ جلد 1 صفحہ 12
135^ تاریخ ابوالفداء از امام اہل سنت عماد الدین اسماعیل بن علی ابوالفداء ۔ اردو ترجمہ از مولوی کریم الدین حنفی صفحہ 177۔179
136^ عقد الفرید از امام شہاب الدین احمد معروف بہ ابن عبدربہ اندلسی۔ جلد 2 صفحہ 176 مطبوعہ مصر
137^ تاریخ بلاذری در تذکرہ بیعت حضرت ابوبکر
138^ الفاروق از شبلی نعمانی حصہ اول صفحہ 113
139^ تحفہ اثنا عشریہ از شاہ عبدالعزیز مطبوعہ نولکشور
140^ صحیح البخاری
141^ صحیح المسلم
142^ مناقب شہر آشوب از حافظ محمد ابن علی شہر آشوب
143^ تاریخ طبری از جریر الطبری
144^ صحیح البخاری جلد 2 کتاب المغازی
145 ^ طبقات ابن سعد الجز الثامن
146^ ، المستدرک الصحیحین جز الثالث از الحاکم
147^ مدارج النبوۃ از شیخ عبد الحق محدث دہلوی
148^ دلائل الامامۃ از جریر الطبری
149 ^ مناقب ابن شہر آشوب

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک