اخلاقِ حسینی کے چند پہلو


امام حسین علیہ السلام کی غیر معمولی شخصیت کے یوں تو بے شمار پہلو ہیں لیکن زیادہ توجہ آپٴ کی شجاعت اور قربانی نے اپنی جانب مبذول کروالی ہے۔ اور اس کی وجہ واقعہ کربلا جیسا عظیم سانحہ ہے جو اپنے مقام پر اندوہگیں بھی ہے اور تاریخ ساز بھی۔اس واقعہ میں جہاں غم کے بے شمار پہلو ہیں وہیں ایثار و قربانی، محبت و عقیدت، عشق و وفاداری، شجاعت و شہامت، صبر و استقامت کی لازوال داستانیں بھی نظر آتی ہیں۔

لیکن آپٴ کی زندگی کے ہر ہر مرحلے پر ایسے واقعات کثرت سے موجود ہیں جو اخلاق کی بلندیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور امام حسینٴ کی زندگی کے مزید روشن پہلو ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ فاضل مصنف جناب محسن امین نے اس مختصر مضمون میں امام حسین علیہ السلام کی زندگی سے چند واقعات کو یکجا کیا ہے، جسے نوجوان دینی طالب علم سید طالب حیدر نے طاہرہ کے قارئین کے لئے ترجمہ کیا اور پھر مختصر وضاحت بھی کردی ہے جس کی وجہ سے اس مضمون کی تاثیر میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ انشائ اللہ ہم سب ان واقعات کو پڑھنے کے بعد جس حد تک ممکن ہو، ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔

سخاوت حسینی

 جود و سخاوت تمام انسانوں کے اندر فطری طور پر پائی جاتی ہے اور ہر فطری فضیلت کو انسان کی ذات میں اجاگر کرنے کے لئے حضرت آدمٴ سے لے کر نبی خاتم ۰ اور پھر ائمہ معصومین نے بہت کوششیں کیں۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ جود و سخا کے بارے میں معصومین کے اقوال کثرت سے ملتے ہیں اور انھوں نے عملی طور پر بھی سخاوت کے ایسے نمونے پیش کئے کہ اگر انسانیت اس فضیلت کی معراج کو دیکھنا چاہے تو اس کو مشکل نہیں ہوگی۔
اسامہ بن زید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ بولے بیٹے تھے اور آپکے بااعتماد ساتھیوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ لیکن حضور کی وفات کے بعد انہوں نے اہلبیت علیہم السلام کی کماحقہ حمایت نہ کی اور امیر المومنین کی خلافت کے دوران ہونے والی جنگوں میں بھی حمایت کی اور نہ مخالفت۔ ایسے پُرآشوب ماحول میں بھی جب وہ مریض ہوتے ہیں تو امام حسین ان کی عیادت کو جاتے ہیں۔ اسامہ نے آپٴ کے سامنے سخت پریشانی کا اظہار کیا۔ امام علیہ السلام نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ میں چھ ہزار درہم کا مقروض ہوں۔
امام حسین نے اسے تسلی دی کہ میں تمہارا قرض اتار دوں گا۔ لیکن اسامہ کی پریشانی دور نہ ہوئی اور انہوں نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ قرض کی ادائیگی سے پہلے میری موت نہ واقع ہو جائے۔
چنانچہ امام نے فرمایا کہ اس سے پہلے کہ تیری موت واقع ہو، میں تیرا قرض اتار دوں گا۔ پھر امام حسین نے اسامہ کی موت سے پہلے اس کا قرض ادا کردیا۔

ہر ایک کے ساتھ ہمدردی سنت نبوی اور سیرتِ اہلبیت یہی رہی ہے کہ جب کوئی غریب اپنے حالات سے مجبور ہوکر ہاتھ پھیلائے تو یہ دیکھے بغیر کہ وہ اپنا ہے یا پرایا، اس کی مدد کی جائے۔ اس تجزیے کی مزید تشریح مندرجہ ذیل واقعہ سے اور واضح ہوجائے گی۔
جب مروان نے حکم دیا کہ فرزدق کو مدینہ سے نکال دیا جائے تو وہ امام حسین کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپٴ نے اس کو ٤٠٠ دینار عطا کئے۔ کسی نے پوچھا کہ ایک فاسق شاعر کو اتنی عطا کیوں کر رہے ہیں تو امامٴ نے جواب دیا کہ ''بہترین بخشش وہ مال ہے کہ جس سے آبرو محفوظ رہے‘‘۔
یعنی اگر آپ نے کسی شخص کی آبرو کو محفوظ کردیا تو یہ جان لیجئے کہ زندگی بھر اس کے دل میں بھی آپ کے لئے عزت و احترام موجود رہے گا۔ اس سلسلے میں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ سنتِ نبوی اور سیرتِ اہلبیتٴ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ انھوں نے شعرا ئ کے ساتھ خصوصاً بہت کریمانہ رویہ رکھا ہے اور اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اشعار انسان کے جذبات اور احساسات پر بہت اثر انداز ہوتے ہیں اور کسی شاعر کا ایک شعر کسی خاص واقعہ کی یاد تازہ کرنے کے لئے شاید ایک ضخیم کتاب سے زیادہ موثر واقع ہو جائے۔

استاد کی اہمیت

استاد کی اہمیت اور اس کو روحانی باپ کا درجہ دینا سنتِ نبوی اور سیرتِ اہلبیت میں بہت واضح طور پر نظر آتا ہے۔ علم حاصل کرنے کی جتنی تاکید دینِ اسلام میں کی گئی ہے شاید ہی کسی اور دین و مکتب میں کی گئی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ علم حاصل کرنے کے آداب بھی تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں چنانچہ استاد کی عزت و احترام بھی آداب تعلیم و تعلم کا ایک اہم حصہ ہے۔ مندرجہ ذیل واقعہ اس پہلو کی بہترین نشاندہی کرتا ہے۔
ابو عبدالرحمن عبداللہ بن حبیب سلمی نے امام حسین کے ایک فرزند کو سورہ جمعہ پڑھنا سکھائی۔ جب بچے نے امامٴ کے سامنے سورۃ کی تلاوت کی تو آپٴ نے ابو عبد الرحمن کو ایک ہزار دینار اور ایک ہزار نئے لباس عطا کئے اور اس کے منہ کو موتیوں سے بھر دیا۔
جب کسی نے بخشش کی کثرت کی وجہ پوچھی تو امام نے فرمایا: ''جو میں نے اس کو عطا کیا ہے، وہ اس کے کام کے مقابلہ میں (یعنی سورہ جمعہ کی کی تعلیم کے مقابلہ میں) بہت معمولی ہے۔‘‘

نیکی کا بدلہ

 اس سے بہتر اسلام نے انسانیت کی فطری فضیلتوں کو پروان چڑھانے کے لئے حالات سازگار بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دوسرے سے محبت کی جائے اور اس کے ساتھ نیکی اور احسان کے پہلو کو مزید تقویت دیا جائے۔ مندرجہ ذیل واقعہ بھرپور طریقے سے ہم سب کو ایک دوسرے سے محبت اور احسان کرنے کی طرف دعوت دے رہا ہے۔
ایک روز امام حسین کی ایک کنیز نے آپٴ کی خدمت میں ایک گلدستہ پیش کیا۔ امام نے جواب میں اس کو راہِ خدا میں آزاد کردیا۔ کسی نے سوال کیا کہ ایک چھوٹے سے گلدستہ کے بدلے میں آپ نے کنیز کو آزاد کر دیا تو امامٴ نے فرمایا: ''یہ طریقہ خدا نے ہم کو سکھایا ہے۔‘‘ یعنی جب تمہیں کوئی سلام کرے تو اس سے بہتر طریقے سے یا کم از کم اسی کے برابر جواب دو۔ (سورہ نسائ ¬٨٦) ''اور اس کنیز کے لئے بہترین تحفہ اس کی آزادی تھی‘

عالم اور جاہل میں فرق

خدا نے بعض نعمتوں کو تمام انسانوں کے درمیان یکساں طور پر تقسیم کیا ہے جیسے سورج کی روشنی اور اس کی حرارت، لیکن بعض نعمتوں کو صرف اہل افراد کے لئے مخصوص کیا ہے جیسے جنت اور اس کی نعمتیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر عطا اور بخشش میں مساوات ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ کے سامنے دو محتاج ہیں؛ ایک عالم اور دوسرا جاہل تو آپ چاہیں تو عالم کو زیادہ دے سکتے ہیں۔ مندرجہ ذیل واقعہ جہاں اور دوسرے نکات کو ظاہر کر رہا ہے وہاں عطااور بخشش کرتے وقت عالم اور جاہل میں فرق کرنے کی بھی دعوت دے رہا ہے۔
ایک مرتبہ ایک بدو امام حسین کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے فرزندِ رسول! میں بہت مقروض ہوگیا ہوں اور اس کو ادا کرنا میرے لئے ممکن نہیں ہے۔ میں نے سوچا کہ کسی ایسے شخص کے پاس جاوں جو سب سے بڑھ کر کریم ہو۔ اور میں نے کسی دوسرے کو اہلِ بیت سے زیادہ کریم نہیں پایا۔
امام حسینٴ نے فرمایا: ''اے میرے عربی بھائی! میں تم سے تین سوال کروں گا۔ اگر ایک سوال کا جواب دیا تو تمہارے قرض کا ایک تہائی حصہ ادا کردوں گا۔ اگر دو سوالوں کے جواب دیئے تو قرض کا دو تہائی حصہ ادا کردوں گا اور اگر تینوں سوالوں کے جواب دے دیئے تو پورا قرضہ ادا کردوں گا۔‘‘
بدو نے کہا کہ آپٴ جیسی صاحبِ علم اور بافضلیت شخصیت مجھ سے سوال کرے اور میں جواب دوں، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
امامٴ نے فرمایا: میں نے اپنے جد رسولِ خدا ۰ سے سنا ہے کہ! ''نیکی اور بخشش اس کی معرفت اور معلومات کے مطابق ہوتی ہے۔‘‘
بدو سوالات پر راضی ہوگیا اور کہنے لگا کہ آپٴ جو چاہتے ہیں، پوچھ لیجئے اگر مجھے معلوم ہوا تو جواب دے دوں گا وگرنہ آپ سے پوچھ لوں گا۔
امامٴ نے پوچھا: بہترین عمل کیا ہے؟
بدو نے جواب دیا: خدا پر ایمان۔
امامٴ نے پوچھا: کون سی چیز لوگوں کو تباہی و ہلاکت سے بچاتی ہے؟
بدو نے جواب دیا: خدا پر توکل اور اعتماد۔
امامٴ نے پوچھا! آدمی کی زینت کس میں ہے؟
بدو نے جواب دیا: وہ علم کہ جس کے ساتھ حلم اور بردباری بھی ہو۔
امامٴ نے پوچھا اور اگر اس کے پاس یہ فضیلت نہ ہو تو؟
بدو نے جواب دیا: ایسا مال کہ جس کے ساتھ غیرت بھی ہو۔
امامٴ نے پھر پوچھا! اگر یہ بھی نہ ہو تو؟
بدو نے کہا! ایسی غربت جس کے ساتھ صبر و تحمل بھی ہو۔
امامٴ نے پوچھا! اگر یہ بھی نہ ہو؟
بدو نے کہا: ایسی صورت میں (بہتر ہے) ایک بجلی آسمان سے نازل ہو اور اس شخص کو جلا کر راکھ کردے کہ وہ اسی کا حقدار ہے۔
امام حسین یہ سن کر مسکرا دئیے اور اس کو ایک ہزار دینار اور ایک انگوٹھی عطا کی اور فرمایا کہ ہزار دینار سے اپنا قرض ادا کرو اور انگوٹھی بیچ کر کہ جس کی قیمت تقریباً ٢٠٠ درہم ہے، اپنی زندگی پر خرچ کرو۔
بدو نے دونوں چیزیں لیں اور یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے رخصت ہوا کہ ''اللّٰہ اعلم حیث یجعل رسالتہ‘‘، ''خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔‘‘ (بحار ج ٤٤)

کس سے سوال کریں

 آج کے اس پُرآشوب دور میں لوگوں کی مالی مشکلات روز بروز بڑھتی جارہی ہیں، لیکن مکتبِ اہلبیتٴ ہر انسان کو ہر ممکن حد تک مشکلات کا سامنا کرنے کی تلقین کرتا ہے اور اگر ہاتھ پھیلانا ناگزیر ہوجائے تو بھی ہر ایک کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے روکتا ہے۔
ایک شخص امام حسین کی خدمت میں حاضر ہوا اور مالی مدد کی درخواست کی۔ امامٴ نے جواب میں فرمایا کہ کسی کے سامنے سوال کرنا صرف تین مواقع پر جائز ہے: بہت زیادہ مقروض ہو یا بہت غریب ہو یا دیت اس کے ذمہ ہو۔
ایک شخص نے امامٴ کی خدمت میں حاضر ہوکر مدد کی درخواست کی۔ امامٴ نے اس کی حاجت پوری کرنے کے بعد اس کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ سوائے تین لوگوں کے اپنی حاجت کسی سے بیان نہ کرو: دیندار سے یا غیرت مند سے یا صاحبِ حسب و نسب سے؛

دیندار شخص اپنے دین کی وجہ سے تیری حاجت کو رد نہیں کرے گا۔
غیر ت مند شخص اپنی غیرت کی وجہ سے شرم کرے گا اور تیری حاجت کو پورا کرے گا۔
اور صاحبِ حسب و نسب انسان چونکہ یہ بات سمجھے گا کہ تو نے اتنی آسانی سے اپنی عزت کو اپنی حاجت بیان کر کے پامال نہیں کیا ہے، اس لئے وہ تیری مزید بے عزتی نہیں ہونے دے گا۔

شانوں پر نشانات

 واقعہ کربلا کے بعد لوگوں نے امام حسین کے شانوں پر زخم کے نشانات دیکھے تو امام زین العابدینٴ سے اس بارے میں پوچھا۔ آپٴ نے فرمایا: میرے والد ہمیشہ رات کو ایک بوری میں خوراک اپنے کاندھوں پر لاد کر بیوہ عورتوں، یتیموں اور مسکینوں کے گھروں میں جاکر تقسیم کرتے تھے۔ (مناقب ابن شہر آشوب )

امام حسینٴ اور فقرا

 سنتِ نبوی۰ اور اہلبیتٴ کی سیرت عام انسانوں سے برتاو میں روایتی بادشاہوں اور حکمرانوں کے عمل سے بالکل مختلف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مکتب انسان کی عزت و آبرو کو ہر چیز پر مقدم رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عاجزی اور انکساری کے عملی واقعات اہلبیتٴ کی سیرت میں بہت زیادہ ملتے ہیں جن میں سے ایک درج ذیل ہے۔
ایک روز کچھ فقیروں کے سامنے سے امام حسین کا گزر ہوا۔ وہ لوگ روٹی کے ٹکڑے کھا رہے تھے۔ امامٴ نے ان لوگوں کو سلام کیا تو انہوں نے امامٴ کو دعوت دی کہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کچھ کھائیں۔ امامٴ نے دعوت قبول کی اور ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور فرمایا: یہ روٹی جو تم لوگ کھارہے ہو، صدقہ نہیں ہے اس لئے میں بھی تمہارے ساتھ بیٹھ گیا ہوں۔ پھر امامٴ نے ان سب کو اپنے گھر دعوت دی۔ جب سب گھر پہنچے تو ان کو کھانے کے علاوہ لباس اور کچھ پیسے بھی دئیے۔

قرآنی تعلیمات او رمعصومین علیہم السلام کا عمل

ہمارا ایمان ہے کہ معصومین قرآنِ ناطق ہیں اور جس طرح قرآن کو ان ہستیوں نے عملی طریقہ سے پیش کیا‘ شاید ہی کوئی دوسرا اس کے مقابل آسکے۔ جن ہستیوں کا ہر عمل قرآن کی تفسیر ہو، وہ یقینا قابلِ اطاعت ہیں۔ مندرجہ ذیل واقعہ اس امر کی بھرپور عکاسی کررہا ہے۔
امام حسین کے ایک غلام نے ایک ایسی غلطی کی جو قابلِ سزا تھی۔ امامٴ نے حکم دیا کہ اس کو تازیانہ مارا جائے۔ غلام نے امامٴ سے کہا: اے میرے مولا! خدا نے قرآن میں فرمایا ہے، ''و الکاظمین الغیظ‘‘ امامٴ نے اس کو معاف کردیا اور کہا کہ اس کو چھوڑ دو۔ غلام نے آیت کا اگلے حصہ پڑھا: ''و العافین عن الناس‘‘ امامٴ نے کہا میں نے تیرا گناہ بخش دیا۔ اب اس نے آیت کا بقیہ حصہ پڑھا: ''و اللّٰه یحب المحسنین‘‘ اس مقام پر امامٴ نے فرمایا: تجھ کو خدا کے لئے آزاد کرتا ہوں۔

امام حسین کی حیاتِ مبارکہ سے انتخاب کئے گئے یہ چند واقعات جہاں امامٴ کی عظمتوں کو بیان کرتے ہیں، وہاں ان پر عمل کر کے ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی میں انقلاب آسکتا ہے۔ امید ہے کہ ہم سب ان روایات کو پڑھنے کے بعد ان پر عمل کر کے اپنی زندگی میں انقلاب پیدا کردیں گے۔