شہادت امام حسن ؑ کے بعد امام حسین ؑ کی حکمت عملی


امام حسین علیہ السلام عالم انسانیت کی وہ عظیم شخصیت ہیں جس نے پورے عالم کے افکار کومتاثر کیا ہے بلاتفریق مذہب وملت ،ہرقوم نے انھیں خراج عقیدت پیش کیا ہے شعراء نے اپنے کلام کے ذریعے اظہار عقیدت کیا ہے مفکرین نے اپنے افکار کوبیان کیا ہے مورخین نے اپنی کتب میں ان کاتذکرہ کیا ہے۔
امام حسین علیہ السلام کے بارے میں بالخصوص ان کے قیام اورواقعہ کربلا کے متعلق مصنفین نے جتنی کتب لکھی ہیں یاشعراء نے جتنا کلام پیش کیا ہے دنیا میں شاید ہی کسی اورکے بارے میں ہوواقعہ کربلا کے بعد سے لے کرہزاروں قلم فرساؤں نے تحریریں لکھی ہیں سینکڑوں کتب، ہزاروں مقالہ جات تحریر کئے گئے ہیں لیکن پھربھی اس موضوع پرتشنگی باقی ہے۔ مفکرین جتنا اس پرسوچتے ہیں فکر کے نئے دریچے کھلتے جاتے ہیں گفتگو کے نئے رخ سامنے آتے ہیں موضوع ہرآن تازہ نظر آتا ہے۔اوراس یہ سب کچھ کازیادہ حصہ امام حسین علیہ السلام کی زندگی کے اس پہلو پرمشتمل ہے جوکربلا سے متعلق ہے یعنی رجب ۶۰ ؁ ھ سے لے کر ۱۰ محرم ۶۱ ؁ ھ تک کے حالات وواقعات۔ جبکہ تاریخ انسانیت کی اس عظیم ہستی نے زندگی کے ۵۷ سال بسر کیے ہیں ظاہر ہے ان کی زندگی کاہرلمحہ انسانوں کے لئے ہدایت کاسامان لئے ہوئے ہے ان کی حیات طیبہ کاہردور عظیم اورپراثر ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ واقعہ کربلا سے پہلے کی زندگی اورسیرت پرروشنی ڈالی جائے۔امام حسین علیہ السلام کی حیات طیبہ کوچند ادوار میں تقسیم کیاجاتا ہے:
-1رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیر سایہ زندگی
-2خلفاء ثلاثہ کادور حکومت۔(حضرت علیؑ کاگوشہ نشینی کازمانہ)
-3حضرت علی علیہ السلام کاظاہری دورخلافت۔
-4امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کادورخلافت وامامت
-5امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ کی موت تک
6۔یزید ملعون کادورحکومت(۶۰۔۶۱ ہجری)
کتب تاریخ میں پہلے اورآخری دور کے متعلق کافی مواد موجود ہے لیکن درمیان والے چار ادوار کے بارے میں بہت کم معلومات پائی جاتی ہیں اگرچہ تاریخی کتابوں کی ورق گردانی کرنے سے کچھ نہ کچھ مواد ضرور مل جاتا ہے جوامام علیہ السلام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کوروشن کرتا ہے جن سے عام لوگ آگاہ نہیں ہیں اس مختصر مقالے میں ان تمام ادوار کے متعلق بیان نہیں کیاجاسکتا البتہ امام حسین علیہ السلام کی زندگی کے پانچویں دورپرکچھ گفتگو کی جاتی ہے اس پربحث کرنے سے جہاں امام علیہ السلام کی شخصیت سے روشنی ملے گی وہاں اس سوال کاجواب بھی مل جائے گا کہ امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کے دور میں کیوں قیام نہیں فرمایا؟ ۶۱ ؁ ھ جمادی الاولی کے وسط میں امام حسن علیہ السلام نے امیر شام سے متعدد شرائط پرصلح کرلی اورحکومت اس کے حوالے کردی معاویہ نے ان شرائط پرحاضرین کوگواہ بنایا جن میں معروف صحابہ اورتابعین شامل تھے ،شرائط میں سے کچھ یہ تھیں:

۱۔حکومت معاویہ کے حوالے اس شرط پرکی جاتی ہے کہ وہ کتاب الٰہی اورسنت نبویؐ اورخلفائے راشدین کی سیرت پرعمل کرے گا۔

۲۔معاویہ کے بعد حکومت امام حسن علیہ السلام کے پاس ہوگی اوران کے لئے کوئی حادثہ پیش آجائے توپھرامام حسین علیہ السلام کے لئے ہے اورمعاویہ کسی کوبھی اپنا جانشین یاخلیفہ نہیں بناسکتا۔

۳۔معاویہ امیرالمؤمنین ؑ پرسب وشتم بندکرائے اورعلی علیہ السلام کونیکی کے علاوہ کچھ نہ کہے۔

۴۔تمام شیعیان علی ابن ابی طالبؑ کوامان ملے گی اورحق کوا س کے صاحب تک پہنچایاجائے گا۔۱؂

۵۔معاویہ اپنے آپ کو امیرالمؤمنین کہلانے کاحق نہیں رکھتا اورنہ ہی امام حسنؑ کے سامنے کوئی شہادت قائم کرسکتا ہے۔
اس شرط کے اضافہ کرنے سے امام حسن علیہ السلام نے واضح کردیا کہ وہ معاویہ کورسول اللہؐ کاخلیفہ اورجانشین نہیں مانتے اورنہ ہی اس کی حکومت کوقانونی سمجھتے ہیں جب ان شرائط پرصلح ہوگئی تواس کے بعد معاویہ نے ان میں سے کسی شرط پربھی عمل نہین کیا بلکہ اس کامقصد صرف اقتدار کوحاصل کرنا تھا اسکا اظہار اس نے ابتدا ہی میں کردیا۔امام حسن علیہ السلام سے صلح کرنے کے بعد معاویہ نے کوفہ کارخ کیا ۔نخلیہ ۲؂ کے مقام پریابنابرقول دیگر کوفہ شہر۳؂ میں اس نے لوگوں سے خطاب کیا اورکہا:''والله انی ماقاتلتکم لتصلّوا ولالتصوموا ولا لتحجّوا ولا لتزکُّوا، انَّکم لتفعلون ذلک، وانما قاتلتکم لأ تأمّر عليکم وقداعطانی الله ذلک وانتم له کارهون۔۔۔‘‘
''اللہ کی قسم! میں نے تمہارے ساتھ جنگ اس لئے نہیں کی تھی کہ تم نمازیں پڑھو نہ ہی اس لئے کہ تم روزے رکھو اورحج انجام دواوراس لئے بھی نہیں کہ تم زکوۃٰ اداکرو تم یہ کام ضرور انجام دوگے میں نے اس لئے جنگ کی ہے کہ تم پرحکومت کروں اوراللہ نے یہ حکومت مجھے دی ہے اگرچہ تم اس سے خوش نہیں ہو۔‘‘
اس کے بعد اس نے کہا:''الا وانَّ کُل شئ اعطيت الحسن بن علیؑ تحت قَدَمَّی هاتين لا افی به له بشيئ منها‘‘۴؂
''آگاہ رہو! میں نے حسن بن علیؑ سے جومعاہدہ کیا ہے وہ میرے پاؤں کے نیچے ہے اورمیں ان شرائط میں سے کسی پربھی عمل نہیں کروں گا۔‘‘
معاویہ نے ان شرائط کے برعکس عمل کیا اورآخر کار سن ۵۰ ہجری میں۵؂ ایک سازش کے تحت جعدہ بن اشعث کے ذریعے امام حسن علیہ السلام کوزہر دلوا کرآپ کی زندگی کاچراغ گل کردیا ۶؂صلح کی شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ معاویہ کے بعدحکومت امام حسن علیہ السلام کے سپرد ہوگی اوران کی شہادت کی صورت میں امام حسین علیہ السلام کے حوالے ہوگی اورمعاویہ کوئی حق نہیں رکھتا کہ وہ کسی کواپناجانشین مقرر کرے۔۷؂
باقی شرائط کی طرح معاویہ نے اس شرط کی بھی پروا نہ کرتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کی موجودگی میں اپنے بیٹے یزید کواپنا جانشین مقرر کردیا اوراس کی ولیعہدی کے لئے تمام علاقوں میں خطوط لکھے اورلوگوں سے بیعت لینا شروع کردی۔معاویہ کے دل میں یزید کی ولیعہدی کاخیال کیونکر آیا اورکیسے آیا یہ الگ بحث ہے جس کی اس مختصر مقالے میں گنجائش نہیں ہے۔
مؤرخین کاکہنا ہے کہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد معاویہ نے مصمم ارادہ کرلیا کہ یزید کوولی عہد مقرر کیا جائے اوراس کے لئے لوگوں سے بیعت لی جائے چنانچہ تمام اسلامی قلمرو کے گورنروں کومکتوب بھیجے گئے تمام اسلامی مملکت میں مدینہ کی اہمیت سب سے زیادہ تھی اوروہاں امام حسین ؑ جیسی شخصیت موجود تھی امیرشام نے مدینے کے والی مروان بن حکم کوخط لکھا کہ کہ وہ مدینے کے لوگوں سے یزید کے لئے بیعت لے مروان نے لوگوں کوجمع کیااورمعاویہ کاحکم سنایا،لوگوں نے بیعت کرنے سے انکار کردیا ان انکار کرنے والوں میں امام حسین بن علیؑ ، عبدالرحمٰن بن ابی بکر، عبداللہ بن عمراورعبداللہ بن عباس سرفہرست تھے مروان نے صورتحال سے معاویہ کوآگاہ کیا۔
معاویہ نے مروان کاخط پڑھنے کے بعد سمجھا کہ یہ اس کی کوتاہی ہے لہذا اسے معزول کرکے سعیدبن العاص کووالی مقرر کردیا اوراسے خط لکھا کہ تمام مہاجرین وانصار اوران کی اولادیں جومدینہ میں موجود ہیں ان سے سختی کے ساتھ بیعت لی جائے اورکوئی رورعایت نہ کی جائے البتہ ان چنداشخاص پردباؤ ضرور ڈالا جائے مگر سختی نہ کی جائے۔۸؂ یہ افراد حسین بن علیؑ ، عبداللہ بن عمر، عبدالرحمٰن بن ابی بکر، عبداللہ بن زبیر تھے معاویہ کاحکمنامہ ملتے ہی سعید بن عاص نے اہل مدینہ کوبیعت کی دعوت دی مگر سب نے انکار کردیا اورکہا کہ جب تک یہ چند اشخاص بیعت کے لئے آمادہ نہیں ہوں گے ہم بھی بیعت کے لئے تیار نہیں ہیں سعید نے معاویہ کولکھا کہ اہل مدینہ ان اشخاص کے زیراثر ہیں اورجب تک یہ بیعت نہیں کریں گے کتنی بھی کوشش کیوں نہ کی جائے اہل مدینہ سے بیعت لینا ممکن نہیں ۔
اس صورتحال کے پیش نظر معاویہ نے خود مدینہ آنے کاارادہ کیا اسی سال وہ حج بیت اللہ کے بہانے شامیوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ مدینے پہنچا ان حضرات سے ملاقات پراظہار ناخشنودی کیااورعتاب آمیز گفتگو کی انھوں نے جب یہ رویہ دیکھا توالگ الگ عمرے کے لئے مکہ روانہ ہوگئے معاویہ نے موسم حج تک مدینہ میں قیام کیااوراہل مدینہ کونرم کرنے کے لئے ان پرانعام واکرام کی بارش کردی۔
اس کے بعد جب امیرشام مکہ پہنچا توان حضرات سے بڑے پرتپاک اوراحترام سے ملاقات کی اورہرایک کانام اس کی شخصیت کے مناسب لقب کے ساتھ لیاامام حسین علیہ السلام کوسیدشباب المسلمین کہا:
''مناسک حج کی بجاآوری کے بعد معاویہ نے ان سب کوایک جگہ طلب کیا جب یہ افراد معاویہ کے پاس پہنچے تواس نے شایان شان احترام کیا اورکہا کہ تم نے دیکھا میں تم پرکس قدر مہربان ہوں تم میرے خون وجگر ہواس لئے تم سے لطف وعنایت کابرتاؤ کرتا ہوں اب یزید تمہارا بھائی اورابن عم ہے میں فقط یہ چاہتا ہوں کہ خلافت پہ اس کانام ہوجائے باقی سب معاملات تمہارے ہاتھ میں رہیں تم جوچاہوگے وہی ہوگا امرونہی کاسب اختیار تمہیں ہی رہے گا یہ سن کرسب خاموش ہوگئے دراصل سب نے انکار کردیا اگلے دن معاویہ نے جلسہ عام بلوایا جس میں سب لوگ شریک ہوئے جواسلامی مملکت کے تمام علاقوں سے حج پرآئے ہوئے تھے مذکورہ افراد کوبھی بلایا ہرایک کے سرپر دودو مسلح سپاہی تعینات کردیئے گئے معاویہ منبر پرگئے خطبہ دیااوراس کے بعدلوگوں سے یزید کی بیعت کرنے کے لئے کہا اورکہا کہ ان افراد نے اس کی مخالفت نہیں کی اورسب نے یزید کی بیعت کرلی یہ کہہ کرمعاویہ منبرسے نیچے اترآیا اورعام لوگوں نے یزیدکی بیعت کرنا شروع کردی۔۹؂
اس طرح سے معاویہ نے زبردستی اورلوگوں کودھوکہ دے کریزید کے لئے بیعت لی ابن قتیبہ نے اس حوالے سے ایک اورواقعہ بیان کیا ہے جب معاویہ مدینے آیا تواس نے دوسرے دن ابن عباس اورامام حسین علیہ السلام کوبلوایا جب آپ آئے تواس نے آپ کو اپنی داہنی جانب جگہ دی اورحال احوال پوچھا امام حسین علیہ السلام نے مناسب جواب دیااورخاموش ہوگئے۔
معاویہ نے گفتگو کاآغاز کیا:''اوررسول اللہؐ کی تعریف وتوصیف کرنے کے بعد یزیدکی بیعت کامعاملہ پیش کیااوریزید کوبڑے بڑے القاب سے یاد کیا اوراس کی اچھی اچھی صفات کوتذکرہ کرتے ہوئے اس کی بیعت کرنے کے لئے امام حسینؑ کوکہا امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:''جوکچھ تو نے یزید کی لیاقت اورامت اسلامی کے امورچلانے کی اہلیت کے بارے میں کہا ہے وہ معلوم ہے ۔
اے معاویہ!تولوگوں کویزید کے بارے میں دھوکہ دیناچاہتا ہے گویا کہ توکسی ایسے شخص کاتعارف کرارہا ہے جولوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ یاغائب ہوجسے لوگوں نے دیکھا ہی نہ ہویا اس کوصرف توہی جانتا ہے ایساہرگز نہیں ہے بلکہ یزید نے اپنی شناخت خود کرائی ہے اوراپنا ضمیرفاش کردیا ہے یزید کاتعارف کرانا ہے تویوں کراؤ کہ یزید کتوں اورکبوتروں سے کھیلنے میں مشغول رہنے والا ہے وہ ایک ابوالہوس آدمی ہے اوراپنا بیشتر وقت راگ رنگ اوررقص وسرور کی محفلوں میں گزارتا ہے یزید کایہ تعارف کراؤ اوراس کے علاوہ سعی لاحاصل نہ کرو۔
اس امت پرتم نے جس قدرجرائم کیے ہیں کافی ہیں اب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مذید بارگناہ اٹھاکرجانے کی کوشش نہ کرتم نے اس قدر ظلم وانحراف کیا ہے کہ لوگوں کے صبرکاپیمانہ لبریز ہوچکا ہے اب تیرے اورتیری موت کے درمیان چندلمحے باقی رہ گئے۔۔۔‘‘۱۰؂
اگر اما م حسینؑ عہدمعاویہ میں قیام فرماتے تومعاویہ امام حسن علیہ السلام کی تحریک اورقیام کوبدنام کرنے کے لئے صلح امام حسن ؑ سے فائدہ اٹھاتا کیونکہ لوگوں کوپتہ تھا کہ امام حسن ؑ نے یہ معاہدہ کیا ہے کہ جب تک معاویہ زندہ ہے وہ سکوت اختیار کریں گے۔۱۱؂
البتہ یہ معلوم ہے کہ امام حسینؑ اس معاہدہ کولازم یا واجب الوفاء نہیں جانتے تھے کیونکہ یہ معاہدہ اختیاری نہیں تھا بلکہ مجبوراً کیا گیا تھاخود معاویہ نے صلح کی تمام شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے معاہدہ توڑ دیا تھا اوروہ اس کی حرمت کاقائل نہیں تھا لہذا یہ معاہدہ صحیح بھی ہوتا تب بھی خودمعاویہ کی جانب سے اس کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے امام حسین علیہ السلام اس کے پابند نہیں تھے۔
دوسری طرف جس معاشرے میں امام حسینؑ زندگی بسر کررہے تھے وہ کسی انقلاب اورقیام کااہل نہ تھا یہ معاشرہ آرام وسکون کوترجیح دیتا تھا اورسوچتا تھا کہ چونکہ امام علیہ السلام نے یہ معاہدہ کیا ہے لہذا انھیں اسے پورا کرنا چاہئے اورگمان غالب یہ ہے کہ اگریہ قیام اس دور میں ہوتا توسیاسی اوراجتماعی دونوں میدانوں میں کامیاب نہ ہوتا کیونکہ اس وقت کے لوگ اسے اسی زاویہ سے دیکھتے جومعاویہ نے ان کے لئے مقرر کررکھا تھااور وہ یہی صلح کامعاہدہ تھا معاویہ رائے عا مہ کے سامنے یہی کہتا کہ امام حسینؑ کاقیام غیرقانونی ہے اورمعاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
سلیمان بن صردخزاعی کوامام ؑ نے جواب دیا تھا اس کامطلب یہی ہے،آپؑ نے فرمایا:
''جب تک معاویہ زندہ ہے اس وقت تک ہمارے شیعیوں کوچاہیئے کہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں میں اس مصالحت کے لئے ہرگز راضی نہیں تھا اگرمعاویہ مرجاتا ہے تواس وقت ہم اپنی رائے کااظہار کریں گے۔۱۲؂
جن اسباب وعوامل کی بنا پرامام حسن علیہ السلام نے صلح کی تھی وہ اسباب اورعوامل اب بھی موجود تھے اگرمعاویہ کے خلاف قیام کاکوئی راستہ ہوتاتو امام حسن علیہ السلام ضرور جنگ کرتے اورصلح نہ فرماتے امام حسین علیہ السلام کے سامنے بھی وہی مشکلات تھیں مذید یہ کہ صلح کے بعدمعاویہ زیادہ طاقتور ہوچکا تھااوران حالات میں قیام اورتحریک کی کامیابی یقینی نہ تھی۔
ایسے حالات میں امام حسین علیہ السلام کے لئے اس امر کی ضرورت تھی کہ ہرچیزسے پہلے لوگوں کوقیام کے لئے تیار کریں لہذا اما م حسینؑ نے اس دور میں اپنے قیام کے لئے افراد کوتیار کیا ہے اورلوگوں کوآگاہی دی ہے جس کاثبوت منیٰ میں امت کے سرکردہ افراد سے آپ کاخطاب ہے جس کاذکر پہلے ہوچکا ہے۔
سلیم بن قیس روایت کرتے ہیں کہ معاویہ کی موت سے دوسال قبل امام حسین علیہ السلام حج پرتشریف لے گئے ان کے ہمراہ عبداللہ بن عباس اورعبداللہ بن جعفر بھی تھے امام علیہ السلام نے بنی ہاشم کے مردوں اورعورتوں کوجمع کیا اورانصار میں اپنے دوستوں کواکٹھا کیاجوامام حسین علیہ السلام اوران کی اہل بیتؑ کوپہچانتے تھے اس سال حج پر آئے ہوئے رسول اللہ ؐ کے تمام اصحاب کوجوعبادت وتقویٰ میں مشہور تھے کوبلانے کاحکم دیا اس طرح سے منیٰ میں سات سوسرکردہ افراد جمع ہوگئے جن میں اصحاب نبیؐ کی تعداد دوسوکے قریب تھی زیادہ تر یہ افراد تابعین تھے جب سب لوگ جمع ہوگئے توآپ کھڑے ہوئے اورخطبہ ارشاد فرمایا آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرنے کے بعد فرمایا:
''تم دیکھ رہے ہو کہ اس باغی وسرکش نے ہمارے اورہمارے شیعوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے میں تم سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں اگرمیں سچ کہوں تومیری تصدیق کرنااوراگرغلط کہوں تومیری تکذیب کرنا میں تمہیں اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولؐکے حق کاواسطہ دیتا ہوں اوراپنی رسول اللہ ؐ سے قرابتداری کے واسطہ دیتاہوں کہ جب تم یہاں سے واپس جاناتوتم پرلازم ہے کہ میری باتوں کواپنے اپنے علاقوں میں مورداعتماد افرادسے بیان کرنااورانھیں ہمارے حق کے بارے میں جوتم جانتے ہو،دعوت دینا مجھے اس بات کااندیشہ ہے کہ کہیں یہ مسئلہ غفلت کاشکار نہ ہوجائے اورحق بالکل غائب اورمغلوب ہوجائے:''واللہ متم نورہ ولوکرہ الکافرون‘‘۱۳؂
اس کے بعد آپ نے قرآن مجید کی آیات کی تلاوت اوران کی تفسیر بیان فرمائی اورپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوکچھ آپ کے والدگرامی ، والدہ گرامی اوربھائی ذی وقار اورخود آپ اوراہل بیت کے متعلق فرمایا تھا وہ سب فضائل ایک ایک کرکے بیان کیے جب آ پ کوئی حدیث بیان فرماتے تومحفل میں موجود اصحاب تصدیق کرتے اورکہتے ہاں ہم نے سنا اوردیکھا ۔اسی طرح موجود تابعین کہتے کہ ہم نے مورد اطمینان اورمعتمداصحاب سے یہ سنا ہے۔۱۴؂
اس کے بعدآپ نے انھیں لوگوں کوامربالمعروف اورنہی عن المنکر کی تلقین کی۔اس روایت سے یہ امرواضح طور پرثابت ہوتا ہے کہ اموی حکمرانوں کی طرف سے فضائل اہلبیتؑ پرمشتمل احادیث نبویؐ کونقل اوربیان کرنے پرسخت پابندی اورقدغن تھی اسی بات نے امام حسین علیہ السلام کومجبور کیاکہ وہ حج کے موقعہ پرمنیٰ میں ایسا اجتماع منعقد کریں جس میں رسول اللہؐ کے بچ جانے والے اصحاب اوربڑے بڑے تابعین شریک ہوں اورآپ انھیں فضائل اہلبیتؑ یاد دلائیں یوں لگتا ہے آپ انھیں ایسے امر کی یاددہانی کروارہے تھے جوبھلا دیا گیا تھا اورشدید دباؤ اوراختناق کی وجہ سے اپنی آخری سانسیں لے رہاتھا اسی لئے آپ نے فرمایا:''فانی اتخوّف ان یدرس ھذا الامر ویذھب الحق ویغلب‘‘۔''مجھے خوف ہے کہ یہ مسئلہ ختم نہ ہوجائے اورحق جاتا رہے اورمغلوب ہوجائے۔‘‘
معاصر مورخ ڈاکٹر محمد ابراہیم آیتی کے مطابق تحف العقول میں جوخطبہ درج ہے اس کے فقروں کے دروبست اورطرز خطاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اسی موقع کاہے۔۱۵؂ اس بات کوواضح کرنے کے لئے ہم اس خطبے سے کچھ اقتسابات نقل کرتے ہیں:سید الشہداء علیہ السلام نے امربالمعروف اورنہی عن المنکر کے بارے میںآیات الٰہی سناکرفرمایا:''تم علم، بھلائی اورخیرخواہی کے لئے مشہورہولوگوں کے دلوں میں تمہاری عظمت ہے شریف تمہارا احترام کرتے ہیں اورکمزور تمہاری عزت کرتے ہیں جن پرتمہارا کوئی احسان نہیں وہ بھی تمہیں اپنے سے بہتر اوربرترسمجھتے ہیں۔‘‘
اس کے بعد آپؑ نے فرمایا:''تم اللہ تعالیٰ سے بھلائی کے متمنی ہومگر میں ڈرتا ہوں کہ کہیں غضب الٰہی میں گرفتار نہ ہوجاؤ کیونکہ تم خدا کے فضل سے ایسے درجے پرہوجودوسروں کوحاصل نہیں تمہاری لوگوں میں عزت ہے لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ خدا سے باندھے ہوئے عہدوپیمان توڑے جارہے ہیں مگر تمہیں کوئی گھبراہٹ نہیں ہوتی حالانکہ اگرکوئی تمہارے آباء سے کیے ہوئے عہدوں کی خلاف ورزی کرئے توتم بے چین ہوجاتے ہو رسول اللہؐ کی امانت کوکوئی پوچھتا نہیں ،بستیوں میں اندھے، گونگے، اپاہج پڑے رہتے ہیں ،پر کوئی ترس نہیں کھاتا تم اپنی ذمہ داریوں کی پروا نہیں کرتے اورجوذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے کی کوشش کرتے ہیں ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے ، ظلم کونظر انداز کرکے اورظالموں سے تعاون کرکے اپنے بچاؤ کی فکرکرتے ہوانھیں باتوں سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا اوردوسروں کوبھی نہی کرنے کاحکم دیا ہے لیکن تم غفلت میں پڑے ہوئے ہوسب سے زیادہ مصیبت توتمہاری ہی ہے کیونکہ جومرتبہ تمہیں ملناچاہئے تھا اورجومقام علماء کاحق تھا تم اس سے زبردستی محروم کردیئے گئے ہوکاش تم سمجھتے۔‘‘
پھرامام علیہ السلام نے فرمایا:''دراصل انتظام وانصرام اوراجرائے احکام کاکام علماء کے ہاتھ میں ہونا چاہئے تھاجوحلال وحرام سے واقف اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کاموں کے نگران ہیں مگرتم سے تمہارا مرتبہ چھین لیاگیا اوریہ اس لئے ہوا کہ تم حق سے دور ہوگئے اور واضح دلائل کے باوجود سنت کے بارے میں تم اختلافات کاشکار ہواگرتم اپنی ذمہ داری محسوس کرتے اورتکالیف ومصائب پرصبر کرتے توسب اختیارات تمہارے ہی ہاتھ میں ہوتے لیکن تم نے اپنی جگہ ظالموں کودے دی اورسب الٰہی امور کااختیار انھیں سونپ دیاجومشتبہ طریقوں پرچلتے اوراپنی بیہودہ خواہشات کی پیروی کرتے ہیں وہ اس لئے تم پرمسلط ہوگئے کہ تم موت سے بھاگتے تھے اورتمہیں زندگی عزیز تھی جوہرحال میں فنا ہونے والی ہے تم نے کمزور اورضعیف لوگوں کوانھیں کے حوالے کردیا ان میں سے کچھ توبے چارے بالکل غلام بن کررہ گئے اورکچھ نان جویں کے محتاج ہوکررہ گئے اب وہ سارے ملک میں من مانی کرتے ہیں اوراپنی خواہشات پرچل کررسوائی سمیٹتے ہیں برے لوگوں کے طورطریقے اپناتے ہیں اورذات جبارکے سامنے حیا نہیں کرتے اوراس کی پروا نہیں کرتے ہرعلاقے اورشہرمیں ان کاخطیب منبر پرچیختا ہے وہ خدا کی زمین کے بلاشرکت غیرے مالک بنے بیٹھے ہیں کوئی ان کاہاتھ روکنے والا نہیں اورسب لوگ ان کے زیردست ہیں وہ جس پرہاتھ ڈالنا چاہیں کوئی انھیں روک ٹوک نہیں سکتا کچھ سرکش ، ہٹ دھرم اورغریبوں کوستانے والے ہیں کچھ اللہ تعالیٰ اورآخرت کے دن سے بیگانے ہیں کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ یہ مملکت ایسے ظالموں کے ہاتھ میں ہے جن کاکام صرف لوٹ کھسوٹ ہے اورایسے لوگ حاکم بنے بیٹھے ہیں جنہیں مومنوں پررحم نہیں آتا اب ہمارے اوران کے درمیان اختلاف کافیصلہ اللہ ہی کرے گا۔۱۶؂
یہ خطاب ان لوگوں سے تھا جوعوام میں مقبول اور ممتاز مقام رکھتے تھے اوراس لئے ان کی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ تھی مگر وہ اپنے فرائض کی بجاآوری میں کوتاہی کررہے تھے یہاں تک کہ امام علیہ السلام نے ظالموں کے اسلامی معاشرے پرتسلط کاذمہ دار انھیں افرادکوٹھہرایا ہے امام علیہ السلام نے انھیں ان کی ذمہ داریوں کااحساس دلایا ہے اب یہ وہی افراد ہوسکتے ہیں جنھیں آپ نے منیٰ میں دعوت دے کربلایاتھا اورخطاب فرمایا تھا یہ خطاب مدینے میں مہاجرین وانصار سے نہیں ہوسکتا کیونکہ اولاً حاکم مدینہ کی موجودگی میں ایسا اجتماع ممکن نہیں ثانیاً آپؑ کااس قسم کی گفتگو کرنااورحاکم وقت کامعترض نہ ہونا بعید لگتا ہے اورپھر اس کاذکرتاریخوں میں بھی نہیں ملتا۔لہذا بعد والے قرائن بھی یہی بتاتے ہیں کہ یہ خطبہ اسی موقعہ پرارشاد ہوا ہے جس کاذکرابتدائے کلام میں ہوا ہے۔
لحن کلام اورخطبے کے مطالب سے ظاہر ہے کہ یہ معاویہ کی وفات کے بعد اوریزید کی بیعت کے معاملہ پیش آنے کے بعد کانہیں ہے۔اس خطاب سے چندنکات بڑے واضح طورپرسامنے آتے ہیں:

-1امام حسین علیہ السلام حکومت کے حالات پربڑی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اوراس کے ظالمانہ کردارکے مضمرات سے پور ی طرح آگاہ ہیں اوران معاملات کواپنی حدتک محدود نہیں رکھا بلکہ اسلامی معاشرے کے سرکردہ افراد کو بھی آگاہ کررہے ہیں اورانھیں موجودہ خطرات سے خبردار کررہے ہیں۔

-2آپؑ آئندہ کے حالات کوبصیرت افروز نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں اورپیش آنے والے واقعہ کے لئے لوگوں کوذہنی طورپرتیارکررہے ہیں۔

-3آئندہ کے واقعات آئندہ کے قیام کے لئے لوگوں کوآمادہ کرنے کے لئے آپ نے دوچیزوں کوواضح کرنا انتہائی ضروری سمجھا ایک تواپنا مقام ومرتبہ یاددلایا، اپنی اوراپنے خاندان کی عظمت،فضیلت اوراہمیت کوبیان کیا اوردوسرا موجودہ ظالم حکومت ظلم وجور اورانحرافات کواجاگر کیا تاکہ لوگ جن کے خلاف قیام کرنا ہے اورجن کی قیادت میں قیام کرنا ہے دونوں کوپہچان لیں۔

-4یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ معاویہ کے دورمیں امام علیہ السلام خاموش نہیں بیٹھے بلکہ لوگوں کوبیدارکرتے رہے اورامام علیہ السلام اپنے قیام اورانقلاب کے لئے مناسب وقت کی تلاش میں تھے اس لئے یہ قطعاً نہیں کہاجاسکتا کہ امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کی حکومت کوتسلیم کرلیاتھا اوروہ صرف یزید کی حکومت کے خلاف تھے۔
اب ہم اس سوال کاجائزہ لیتے ہیں کہ آخر آپ نے معاویہ کی حکومت کے خلاف کیوں قیام نہیں کیا حالانکہ اس نے امام حسن علیہ السلام سے صلح کی کسی شرط پربھی عمل نہیں کیا؟
اس مختصر مقالے میں شاید ہم ان تمام علل واسباب کاجائزہ نہ لیں سکیں البتہ ایک دوباتوں کی طرف اشارہ ضرور کریں گے:جب ۴۱ ؁ ھ میں امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کرلی اوراس کے بعد صلح کی شرائط پرعمل نہ کیا بلکہ شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عراق کے شیعیوں پرعرصہ حیات تنگ کردیاان میں سے بہت نامور اورصالح ترین افراد جیسے رشید ہجری، عمروبن حمق خزاعی، جویرہ بن مسھرعبدی، عبداللہ بن یحیٰی حضرمی اوران کے ساتھیوں اوراسی طرح حجربن عدی کندی اوران کے بھائیوں اورساتھیوں کوقتل کرادیا اورعراق میں ظلم وستم کابازار گرم کردیا توکوفے کے معززین اورقبائل کے زعماء نے اجتماع کیااوراموی حکومت کے مظالم اورانحرافات پربحث وگفتگو کی اورصلح کی شرائط کی عدم پاسداری کوزیربحث لایا نتیجے کے طور پرانھوں نے زعماء کوفہ پرمشتمل ایک وفد مدینہ میں امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا تاکہ وہ ان مسائل پرآپ سے گفتگو کرے اورآپ کومعاویہ کے خلاف دوبارہ جنگ کرنے پرآمادہ کریں اورصلح کی شرائط کی مکمل خلاف ورزی پراسے توڑنے پرقائل کریں اوراگر وہ انکار کریں توپھروہ یہی مطالبات لے کر امام حسین علیہ السلام کے پاس جائیں شاید وہ ان کے مطالبات کومان لیں کیونکہ انھوں نے محسوس کیا کہ امام حسین علیہ السلام معاویہ کے انحرافات اورظلم وستم پرسخت ناراض اورغصہ میں ہیں۔
چنانچہ وفدکوفہ سے روانہ ہوا مدینہ پہنچا اورپروگرام کے مطابق امام حسن علیہ السلام کے پاس گیا جب انھوں نے اپنی چاہتوں کے مطابق جواب نہ پایا تووہ امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں آئے تاکہ ان کے ذریعے سے امام حسن علیہ السلام کومعاویہ سے صلح نامہ پرنظرثانی کے لئے آمادہ کریں یایہ کہ امام حسین علیہ السلام خود قیام کریں۔امام حسین علیہ السلام نے انھیں جواب دیا:''قد کان صلح وکانت بیعۃ کنت لھاکارھاً، فانتظروا مادام ھذا الرجل (یعنی معاویہ)حیاً ،فان یھلک نظرنا ونظرتم‘‘۔''صلح ہوچکی ہے اورمجبوراً بیعت ہے ہمارے لئے پس تم انتظار کروجب تک یہ شخص(یعنی معاویہ) زندہ ہے جب یہ شخص مرجائے تواس وقت ہم اورآپ دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے؟‘‘۱۷؂
اس جواب کے بعد وہ وفد واپس کوفہ چلاگیا۔ اس کے بعد عراق کے شیعوں اورامام حسین علیہ السلام کے درمیان مسلسل رابطہ رہا اورخط وکتابت کاسلسلہ بھی جاری رہا اس تمام عرصہ میں آپ انھیں صبر اورانتظار کرنے کی تلقین فرمائی ۔جب ۵۰ ؁ ھ میں امام حسن علیہ السلام کوزہر سے شہید کردیاگیا توعراق کے شیعہ دوبارہ متحرک ہوگئے اورانھوں نے کئی اجتماعات منعقد کیے انھوں نے امام حسین علیہ السلام کوخط لکھا جس میں انھوں نے بھائی امام حسن علیہ السلام کی وفات پرتعزیت کے ساتھ آپ کوصلح کاپیمان توڑنے اورمعاویہ کے خلاف قیام کرنے کی دعوت دی۔انھوں نے لکھا:
''ہم تک حسن بن علی ؑ کی رحلت کی خبر پہنچی سلام ہوان پرجس دن وہ پیداہوئے جن دن انھوں نے کوچ کیااورجس دن وہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اوران کی نیکیوں کوقبول فرمائے اورانھیں اپنے نبی محمدؐ سے ملحق فرمائے اوران کے مصائب پران کے اجر میں اضافہ فرمائے اوران کے بعد آپؑ کے لئے یہ مصیبت اچھائی میں بدل دے اوراللہ تعالیٰ کے ہاں حساب وکتاب ہے (انا لله وانا اليه راجعون)
اس امت پراس سے بڑھ کراورکونسی مصیبت ہوسکتی ہے یہ آپ کے خاص شیعہ ہیں، آپ امیرالمؤمنین ؑ کے فرزند اوررسول خدا ؐ کی بیٹی کے بیٹے ہیں ،ہدایت کاعلم، شہروں کانور ہیں اوردین کے قائم ہونے کی امید آپ سے ہے صالحین کی سیرت کا اعادہ آپ کے دم سے ہے آپ اس مصیبت پرصبر کریں(اللہ آپ پررحم فرمائے)کیونکہ صبرکرنا ہی پختہ امور میں سے ہے آپ اپنے سے پہلے والوں کے جانشین ہیں اوراللہ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے اسے جوآپ کی راہنمائی میں چلتا ہے۔
اورہم آپ کے شیعہ ہیں جوآپ کی مصیبت پرحزن وملال رکھتے ہیں آپ کے غم سے غم واندوہ میں مبتلا ہوتے ہیں آپ کی خوشی سے خوش ہوتے ہیں آپ کی سیرت پرچلنے والے ہیں آپ کے حکم کے منتظر ہیں اللہ تعالیٰ آپ کوشرح صدر دے آپ کے ذکر کوبلند کرے اورآپ کواجرعظیم عنایت فرمائے آپ کی مغفرت کرے اورآپ کے حق کو آپ کی طرف پلٹا دے۔ والسلام ۱۸؂
امام حسین علیہ السلام نے ان کاخط پڑھا اورانھیں جواب میں لکھا:''مجھے پوری امید ہے کہ صلح کے بارے میں میرے بھائی کی رائے اورظالموں سے جہاد کے بارے میں میری رائے صحیح اورپختہ اوررشدوہدایت پرمبنی ہے پس فی الحال اپنے آپ کوظاہرنہ کرو اورزمین سے چمٹے رہو اورہدایت کادامن نہ چھوڑو جب تک یہ ھند کابیٹا زندہ ہے اگراسے کوئی حادثہ پیش آیا اورمیں زندہ ہوا توانشاء اللہ اپنی رائے اورموقف کااظہار کروں گا۔‘‘۱۹؂
لیکن عراق کے شیعوں خصوصاً اہل کوفہ نے خطوط اوروفود کاسلسلہ جاری رکھا اورآپ انھیں صبر وتحمل اورمعاویہ کی موت کے انتظار کاکہتے رہے ۔آخری وفد مسیب بن نخبہ کی سربراہی میں کوفہ سے مدینہ آیا جومعاویہ کے خلاف قیام کامطالبہ کررہے تھے اورکہہ رہے تھے:''ہم آپ کی رائے کوجانتے ہیں اورآپ سے پہلے آپ کے بھائی کی رائے کوبھی۔‘‘امام حسین علیہ السلام نے انھیں جواب دیا:''میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے بھائی کواس کی نیت کی جزا دے گا اورمجھے ظالموں سے جہاد سے میری محبت کی نیت کی جزا دے گا۔‘‘۲۰؂
امام حسین علیہ السلام کے پاس کوفہ کے وفود اورخطوط کاآنا حکمرانوں سے پوشیدہ امرنہ تھا بلکہ حاکم مدینہ مروان بن الحکم نے اس پرمعاویہ کوخط بھی لکھا اوراسی کے ردعمل کے طور پرمعاویہ نے امام حسین علیہ السلام کومکتوب لکھا اوراپنے عہدوپیمان اورصلح کی پابندی کی تاکید کی۔معاویہ امام ؑ کولکھتا ہے:''میرے پاس آپ کی سرگرمیوں کی خبریں پہنچی ہیں اگریہ خبریں سچ ہیں تومجھے آپ سے ایسی توقع نہیں تھی اوراگر یہ خبریں غلط ہیں توبجا ہے کیونکہ میں ایسی باتوں سے آپ کوبری سمجھتا ہوں جوعہد آپؑ نے خدا سے کیا ہے اسے پورا کریں اورمجھے بھی ایسا کرنے پرمجبور نہ کریں اگرآپ میری اورمیری حکومت کی تائید نہیں کریں گے تومیں بھی آپ کوجھٹلانے کی کوشش کروں گا اوراگرمجھ سے چال بازی سے پیش آئیں گے تومیں بھی ایسا ہی کرونگا خدا سے ڈریں اورامت اسلامی کواختلاف اورفتنہ سے بچائیں۔۲۱؂
امام حسین علیہ السلام نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا:''اما بعد تمہارا خط ملا تم نے لکھا تھا کہ میرے بارے میں تم تک ایسی خبریں پہنچی ہیں جو بزعم خود میرے لئے زیب نہیں دیتیں اورتیرے نزدیک یہ باتیں میرے شایان شان نہیں ہیں یہ بات ذہن میں رہے کہ نیکی کی ہدایت صرف اللہ ہی دیتا ہے اوروہ باتیں جومیرے بارے میں تم تک پہنچی ہیں وہ بالکل بے بنیاد ہیں جوسخن چینی کرنے والوں تفرقہ اندازوں اوراختراع پردازوں کی خودساختہ ہیں نہ میں نے تمہارے خلاف جنگ کرنے کی تیاری کی ہے اورنہ تمہارے خلاف قیام کرنے کاارادہ رکھتا ہوں یہ باتیں تمہارے خوف اورتم سے عذرخواہی کے ڈریاتمہارے ظالم، ملحدین اوربے دین ساتھیوں کے ڈر کی وجہ سے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ خوف خدا کی وجہ سے کیا تم''حجرابن عدی‘‘ اوراس کے ساتھیوں جونمازی اورعبادت گزار تھے کے قاتل نہیں ہو؟ جن کاگناہ صرف یہی تھاکہ انھوں نے ظلم وبدعت کامقابلہ اورامربالمعروف اورنہی عن المنکر کیااورراہ خدا میں کسی کی پرواہ نہ کی اوراس کے باوجود تم نے ظلم وستم سے شہیدکردیاجبکہ ان کوامان د ی جاچکی تھی اورگذشتہ واقعات کے تحت ان کواذیت نہ دینے کاوعدہ کیاگیا تھا لیکن اس کے باوجود تم نے ان کے خوان سے ہاتھ رنگے کیاتم رسولؐ کے صحابی''عمروابن حمق‘‘ کے قاتل نہیں ہو؟کیااس بندہ صالح کوتم نے امن دینے کے بعدقتل نہیں کیا؟کیاتوم وہ شخص نہیں ہوجس نے زیادہ ابن سمیہ کوجوثقیف کے چندکمینوں کے ہاں پیدا ہواتھا اپنابھائی بنالیا جبکہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایاتھاکہ بچہ اپنے باپ کاہوگا اورزانی توسنگسار کیاجائے گا تم نے سنت رسولؐ کوچھوڑ کراپنی خواہشات کی پیروی کی اوراللہ کی ہدایت سے انحراف کیااوراس کے بعد تم نے اس''زیاد‘‘ کومسلمانوں پرمسلط کردیا ان کے ہاتھ پیرکاٹ دیئے ان کی آنکھیں نکالیں اوران کوکھجور کے درخت پرسولی دے دی گویا کہ تم اس امت سے نہیں ہویااس امت کاتم سے کوئی ربط نہیں ہے کیاتم وہ نہیں ہوجس نے اہل''خضرموت‘‘کوعلیؑ کے ساتھ محبت کرنے کے جرم میں قتل کردیا جب سمیعہ کے بیٹے نے اطلاع دی کہ اہل خضرموت دین علیؑ کے پیروکار ہیں تم نے اسے نہیں لکھا کہ جوشخص علیؑ کے دین کاپیروکار ہواسے قتل کردو سمیعہ کے بیٹے نے تیرے حکم پران کوقتل کیا اوران کومثلہ کیا حالانکہ علیؑ کادین رسول اکرمؐ کادین ہے اوراسی دین کی خاطر علیؑ نے تم کواورتمہارے باپ کوتہہ تیغ کیاتھا اوراسی دین کے نام سے تواب حکومت کررہا ہے معاویہ!تم نے لکھا تھا کہ میں اپنی جان، اپنے دین اورامت محمدؐ کاخیال رکھو اوراس امت میں اختلاف اورفسادنہ کروں میرے نزدیک اس امت پرتیری حکمرانی سے بڑھ کرکوئی مصیبت نہیں ہے جب میں اپنی ذمہ داری اپنے دین اورامت محمدؐ کی خاطر سوچتا ہوں توتم سے لڑنا میرے نزدیک سب سے زیادہ اہم ہے معاویہ!تم نے لکھا تھا کہ اگرمیں نے تمہارے ساتھ کوئی بدی کی توتم بھی میرے ساتھ بدی کروگئے اوراگر میں نے تم سے دشمنی کی توتم بھی مجھ سے دشمنی کروگے میں آج تمہیں بتادیناچاہتاہوں کہ تم سے جس قدر ممکن ہوسکے مجھ سے دشمنی کرومجھے اطمینان ہے کہ تمہاری دشمنی میرے لئے کوئی نقصان دہ نہ ہوگی نقصان ہوگاتوتمہیں ہوگا کیونکہ تم جہالت کی سواری پرسوار ہواورعہدشکنی کے حریص مجھے اپنی جان کی قسم کہ تم نے اپنی کسی شرط پرعمل نہیں کیا صلح ، صفائی عہدومیثاق اورامن کے معاہدے کے بعدتم نے کچھ لوگوں کوشہیدکردیا جن کاگناہ صرف یہی تھا کہ وہ ہمارے فضائل کے قائل تھے اورہماری عظمت بیان کرتے تھے خداتمہارے ان جرائم کوفراموش نہیں کرے گا اوربے بنیاد الزامات پران بندگان صالح کے قتل اوران کواپنے گھروں سے نکال کرشہربدرکرنا ہرگز نہیں بخشے گا۔‘‘
مذکورہ باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی حسن بن علی علیہاالسلام کے معاویہ کے ساتھ صلح کے پیمان کی مکمل پاسداری کی ہے جب کہ اس کے برعکس معاویہ نے اس کی تمام شرائط کوپس پشت ڈال کراپنے عزائم اورسازشوں کوجاری رکھا لیکن معاویہ کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی اوران پراس کی خبر ظ

حوالہ جات:

(۱) الارشاد للمفید:باب ذکرالامام الحسن بن علیؑ ، الفصول الہمہ ابن الصباغ المالکی،ص۱۴۵۔ ذخائر العقبیٰ:ص۱۳۹۔ عمدۃ الطالب: ص۵۲۔
(۲)ایضاً
(۳)تاریخ یعقوبی،ج۲، ص۱۹۲۔
(۴)ایضاً
(۵)انساب الاشرف،بلاذری،ج۳، طبع بیروت۔
(۶) مقتل الحسینؑ ،محمدتقی بحرالعلوم،ص۸۱ ،بیروت۔
(۷) شرح نہج البلاغہ، ج۴، ص۸۔
(۸)تاریخ عاشورہ ،ابراہیم آیتی، ص۲۴۔
(۹) الامامۃ والسیاسۃ ،ج۱، ص۱۸۳تا۱۸۲۔
(۱۰)(الامۃ والسیاسۃ ، ج۱، ص۱۹۵ ۔۱۹۶)
(۱۱)شرح ابن حدید، ج۴، ص۸۔
(۱۲)امامۃ والسیاسۃ ،ج ۱، ص۱۷۳۔
(۱۳)الامام الحسین فی مدنیۃ المنورہ ورحلتہ الی مکۃ المکرمۃ،ج۱، ص۲۵۸۔
(۱۴)الامام حسین فی المدینہ منورہ،ص۲۵۸۔
(۱۵)تاریخ عاشورہ، ص۲۹۔
(۱۶)تحف العقول، ص۲۳۷تا۲۳۹۔
(۱۷) انساب الاشراف، ج۳۔
(۱۸) تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۰۳۔
(۱۹) مقتل الحسین ؑ ،۸۰ تا۸۸۔
(۲۰) بلاذری کی انساب الاشراف، ج۳، ص۱۵۲، مطبوعہ بیروت۔
(۲۱)انساب الاشراف، ج۲، ص۵۳۔