امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

زبان کے بعض گناہ

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

زبان کے بعض گناہ
مسئلہ 2277:مومن کو ناسزا کہنا اور دشنام (گالی) دینا حرام ہے اور دشنام اور ناسزا كہنا اس وقت صادق آتا ہے جب اس کے معنی کو حتمی طور پر قصد کرے لیکن اگر مذاق میں کہے تو ممکن ہے کسی دوسرے عنوان جیسے توہین وغیرہ کے عنوان سے حرام ہو اور حرام ہونے میں دشنام دیے جانے والے شخص کے حاضر یا غائب ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے جس كے تشخیص دینے کا ملاک عرف ہے پس جس چیز پر عرفاً دشنام صدق كرے حرام ہے اور جس کے بارے میں شک ہو حرام نہیں ہے۔

مسئلہ 2278: دشنام اور ناسزا کے حرام ہونے میں مختلف زبانوں میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ اگرکسی اہل زبان کو کسی دوسری زبان میں دشنام دیں جس زبان کو وہ نہ سمجھ رہا ہو پھر بھی حرام ہے اور اسی طرح افراد کے اعتبار سے بھی کوئی فرق نہیں ہے مگر بدعت گزار شخص جو شریعت کی مخالفت کر رہا ہے اس طرح سے کہ شریعت اس کے احترام کو لازم نہیں سمجھ رہی ہو اور اسی طرح دشنام کے حرام ہونےمیں بالغ و نابالغ ، والدین اور اولاد، شوہر اور بیوی، بھائی، بہن، استاد و شاگرد ، رئیس اور نوکر وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔

مسئلہ 2279: مومن کی ہجو حرام ہے اور ہجو سے مراد اس کے عیب کو بیان کرنا اور اس کی بدگوئی اور مذمت کرنا ہے خواہ نثر کی شکل میں ہو یا شعر کی شکل میں اورمومن کے علاوہ دوسرے لوگوں کی بدگوئی اور مذمت اچھا کام نہیں ہے؛ مگر یہ کہ عمومی مصلحت کا تقاضا ہو تو کبھی اس صورت میں بدگوئی اور مذمت واجب ہو جاتی ہے مثلاً فاسق بدعت گزار شخص کی بدگوئی اور مذمت تاکہ لوگ اس کی بدعت کی طرف رجحان پیدا نہ کریں۔

مسئلہ 2280: نازیبا کلام کہنا حرام ہے گرچہ شخص ناسزا اور گالی دینے کا قصد نہ رکھتا ہو اور اس سے مراد ہر وہ کلام ہے جس کی عرف میں تصریح کرنا کسی بھی فرد كی بہ نسبت یا ہمسر کے علاوہ وہ دوسرے لوگوں كی بہ نسبت قبیح اور معیوب سمجھا جاتا ہو تو پہلی قسم سب كی بہ نسبت حرام ہے، اور دوسری قسم ہمسر کے علاوہ بقیہ دوسروں كی بہ نسبت حرام ہےلیکن ہمسر کے لیے حرام نہیں ہے البتہ ان الفاظ کا استعمال ہمسر کو ناسزا کہنے اور دشنام دینے کے لیے ہو تو دشنام ہونے کے عنوان سے حرام ہے۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک