4%

جواب: آیات میں اس بات کی طرف کوئی اشارہ نہیں کہ مذکورہ توجہ خدا کی طرف دعوت دینے کیلئے تھی_ ممکن ہے کہ اس توجہ کی وجہ کوئی دنیوی مقصد ہو مثلا لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا یا عزت حاصل کرنا وغیرہ_ رہی بات ارشاد الہی کی کہ (لعلہ یزکی) (شاید وہ پاکیزگی اختیار کرلے) تو اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کام اس مخاطب کے ہاتھوں انجام پائے بلکہ ممکن ہے اس مجلس میں حاضر کسی اور کے ہاتھوں یہ کام مکمل ہو مثلا رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا کسی اور کے ذریعے_

اس کے علاوہ اگر ہم فرض کریں کہ وہ شخص تبلیغ دین کی غرض سے ان امیروں کی طرف توجہ دے رہا تھاتب بھی یہ بات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے بارے میں نہیں کیونکہ تبلیغ رسول خدا کے ساتھ مخصوص نہیں چنانچہ ان لوگوں کے بقول آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ ایک اور شخص بھی اس تبلیغ پر توجہ دیتا تھا چنانچہ اس کے ذریعے کچھ لوگ مسلمان ہوئے (بشرطیکہ یہ بات درست ہو)_

درست روایت

یہاں صحیح روایت وہ معلوم ہوتی ہے جو حضرت امام صادقعليه‌السلام سے مروی ہے_ اس حدیث کے مطابق یہ آیات ایک اموی کے بارے میں نازل ہوئیں جو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس حاضر تھا_ اتنے میں ابن ام مکتوم آیا، اموی نے اسے گنداسمجھتے ہوئے تیوری چڑھائی اور سمٹ کر بیٹھ گیا نیز اس سے منہ پھیر لیا پس ان آیات میں خدانے اس کا قصہ بیان کیا اور اس کی مذمت کی_(۱)

واضح رہے کہ شروع میں آیات کا خطاب اس شخص کی طرف نہ تھا بلکہ خدا نے اس کے بارے میں غائب کا صیغہ استعمال کیا اور فرمایا اس نے منہ بسورا اور رخ پھیر لیا کیونکہ اس کے پاس ایک نابینا آیا پھر اچانک اسے مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے (وما یدریک) (یعنی تجھے کیا معلوم ...)_

لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ شروع میں خدا نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخاطب ہو (اس شخص کے بارے میں) اورپھر

___________________

۱_ مجمع البیان ج ۱۰ص ۴۳۷و تفسیر البرہان ج ۲ص ۴۲۸و تفسیر نور الثقلین ج ۵ص ۵۰۹ _