یہاں ہم اس بات کابھی اضافہ کرتے ہیں کہ سلمان تو مدینے میں مسلمان ہوئے نیز ابوذر بھی مسلمان ہونے کے فوراً بعد پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم سے جدا ہوکر عسفان میں مکہ والوں کے قافلوں کی گزرگاہ پر رہنے لگے تھے (جس کا ذکر ہو چکا ہے)_
بظاہر مشرکین نے اس بات پر زور دیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان غریب مسلمانوں کو اپنے پاس نہیں بٹھائیں، اس سلسلے میں انہوں نے حضرت ابوطالب سے بھی بات کی اور حضرت عمر نے بھی اس بات کو تسلیم کرنے کا اشارہ کیا( جیساکہ نقل ہوا ہے)_ پس سورہ انعام کی یہ آیات ان لوگوں کے ردمیں نازل ہوئیں _
ان آیات میں اس بات کا تذکرہ نہیں کہ حضورصلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کی رائے کو قبول کیاہو جیساکہ مذکورہ روایات کا دعوی ہے _یہاں ہم روایات کے درمیان موجوداختلاف، ان کے کمزور پہلوؤں اوران لوگوں کے باطل خیالات کو بیان کرنے سے احتراز کرتے ہیں اور ابن ام مکتوم کے واقعے میں جو کچھ عرض کیا ہے، اسی پر اکتفا کرتے ہیں_البتہ یہ اضافہ بھی کرتے چلیں کہ آیت '' ولا تطرد الذین یدعون ربہم ...'' کا ظاہر پر یہی بتاتا ہے کہ یہ ڈانٹ ان لوگوں پر پڑی ہے جن سے یہ کام سرزد ہوا ہے اور '' ما علیک من حسابہم من شی ...'' کے قرینہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے مہربانی اور لطف فرماتے ہوئے اپنی نبیصلىاللهعليهوآلهوسلم کو ان لوگوں سے علیحدہ رکھا ہے _
حضرت عمر بن خطاب کا قبول اسلام
کہتے ہیں کہ حضرت حمزہ کے قبول اسلام کے تین روز بعد بعثت کے چھٹے سال حضرت عمر مسلمان ہوئے_ وہ اپنی تلوار لیکر رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کے بعض اصحاب کی تلاش میں نکلے تھے جن کی تعداد چالیس کے قریب تھی_ وہ کوہ صفا کے قریب ارقم کے گھر میں جمع تھے_ ان میں حضرت ابوبکر، حضرت حمزہ اور حضرت علیعليهالسلام بھی تھے جو حبشہ نہیں گئے تھے_ راستے میں نعیم بن عبداللہ سے حضرت عمر کی ملاقات ہوئی اس کے پوچھنے پر