9%

نے پہلے پہل حضرت عمر کو الفاروق کہہ کرپکارا _ مسلمانوں نے یہ لفظ ان سے لیا ہے اور ہمیں کوئی ایسی روایت نہیں ملی کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے اس قسم کا لقب دیا ہو''(۱) جبکہ فاروق کا لقب انہیں ایام خلافت میں ملا تھا(۲)

۳_ کیا حضرت عمر کو پڑھنا آتا تھا؟

روایات میں مذکور ہے کہ حضرت عمر کو پڑھنا آتا تھا اور انہوں نے صحیفہ قرآنی کو خود پڑھا تھا_

ہمارے نزدیک تو یہ بات بھی مشکوک ہے اور ہمارا نظریہ یہ ہے کہ حضرت عمر کو نہ پڑھنا آتا تھا نہ لکھنا خصوصاً شروع شروع میں_ زندگی کے آخری ایام میں لکھنا پڑھنا سیکھ گئے ہوں تویہ اور بات ہے_ اس کی دو وجوہات ہیں:

پہلی وجہ: بعض حضرات نے صریحاً کہا ہے کہ خباب بن ارت نے انہیں نوشتہ قرآنی پڑھ کر سنایا تھا_(۳) پس اگر وہ پڑھ سکتے تو معاملے کی سچائی اور حقیقت جاننے کے لئے اسے خود کیوں نہیں پڑھا_

دوسری وجہ: حافظ عبدالرزاق نے( ان لوگوں کے بقول) صحیح سند کے ساتھ مذکورہ واقعے کو نقل کیا ہے لیکن اس نے کہا ہے کہ حضرت عمرنے (اپنی بہن کے گھر میں) شانے کی ہڈی (جس پر قرآن کی آیات مرقوم تھیں) تلاش کی اور جب وہ مل گئی تو حضرت عمرنے کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ تو وہ کھانا نہیں کھاتی جو میں کھاتا ہوں_ پھر اس ہڈی سے اپنی بہن کو مارا اور اس کے سر کو دوجگہوں سے زخمی کردیا _ پھر وہ ہڈی لیکر نکلے اور کسی سے پڑھوایا_ حضرت عمر ان پڑھ تھے _جب وہ نوشتہ انہیں پڑھ کرسنایا گیا تو ان کا دل دہل گیا_(۴) اس بات کی تائید عیاض ابن ابوموسی کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ عمر بن خطاب نے ابوموسی سے کہا:

___________________

۱_ تاریخ عمر ابن خطاب ( ابن جوزی )ص ۳۰، طبقات ابن سعد ج ۳حصہ اول ص ۱۹۳، البدایة و النہایة ج ۷ص ۱۳۳، تاریخ طبری ج ۳ص ۲۶۷سنہ۲۳ہجری کے واقعات اور ذیل المذیل ج ۸از تاریخ طبری_

۲_ ملاحظہ ہو: طبقات الشعراء (ابن سلام ) ۴۴_

۳_ تاریخ ابن خلدون ج۲ص ۹ _

۴_ المصنف (حافظ عبدالرزاق) ج ۵ص ۳۲۶_