بائیکاٹ:
جب قریش نے مکہ میں نبی کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھیوں کی، نیز حبشہ میں آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کے اصحاب کی عزت و حیثیت دیکھی، اس کے علاوہ قبائل میں اسلام کے پھیلاؤ کا عمل دیکھا(۱) اور یہ بھی محسوس کیا کہ اسلام کے مقابلے میں ان کی ساری کوششیں رائیگاں ثابت ہوئیں ، تو انہیں ایک نئے تجربے کی سوجھی اور وہ تھا ابوطالب اور بنی ہاشم کا اقتصادی ومعاشرتی بائیکاٹ، تاکہ اس طرح یاتو وہ حضرت محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم کو قتل کرنے کیلئے ان کے حوالے کردیتے یا( ان کے خیال خام میں) آپصلىاللهعليهوآلهوسلم خود اپنی دعوت سے دست بردار ہوجاتے یا بصورت دیگر وہ سب بھوک اور بے کسی کے عالم میں راہی ملک عدم ہوتے _یوں کسی ایک فرد کے اوپر ذمہ داری بھی نہ آتی جو ایک ایسی خانہ جنگی کا باعث بن سکتی تھی جس کے برے نتائج کا کوئی شخص اندازہ نہیں لگا سکتا تھا_
مختصر یہ کہ انہوں نے ایک عہدنامہ لکھا، جس میں سب نے مل کر یہ عہد کیا کہ وہ بنی ہاشم کے ساتھ شادی بیاہ کا رشتہ قائم نہیں کریں گے، خرید وفروش نہیں کریں گے، اور کوئی عمل ان کے ساتھ مل کر انجام نہیں دیں گے مگر یہ کہ وہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ کو قتل کرنے کیلئے ان کے حوالے کردیں_
اس عہدنامے پر قریش کے چالیس رؤسا نے دستخط کئے اور اپنی مہریں بھی لگائیں_ اسے انہوں نے ایک عرصے تک کعبے میں آویزاں رکھا (کہتے ہیں انہیں اس کی چوری کا خطرہ محسوس ہوا اسلئے اسے ابوجہل کی ماں کے گھر منتقل کیا)_(۲)
___________________
۱_ سیرت مغلطای ص ۲۳نیز سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۷۵اور تاریخ الخمیس ج ۱ص ۲۹۷از مواھب اللدنیة کی طرف رجوع کریں_
۲_ بحارالانوار کی جلد ۱۹ص ۱۶پر الخرائج و الجرائح سے اسی طرح نقل ہوا ہے یہاں اس بات کی تحقیق کی زیادہ ضرورت نہیں_