4%

کیلئے قوت لایموت کا بندوبست ہوتا تھا جو اپنے دین اور عقیدے کی راہ میں عظیم ترین مصائب ومشکلات جھیل رہے تھے_ اورجن کا مقابلہ کرنے کیلئے قریش ہر قسم کے غیر اخلاقی وغیر انسانی حربوں حتی کہ انہیں فقر وفاقے پر مجبور کرنے کے حربے سے کام لے رہے تھے _ یہ ہے وہ حقیقت جس کی بنا پر یہ مقولہ مشہور ہوگیا کہ اسلام حضرت خدیجہعليه‌السلام کے مال اور حضرت علیعليه‌السلام کی تلوار سے کامیاب ہوا_

یہ واضح ہے کہ بنی ہاشم کے بائیکاٹ کے دوران حضرت خدیجہ کی دولت صرف بھوکوںکو زندہ رکھنے والے اناج اور برہنہ کو لباس فراہم کرنے میں خرچ ہوئی _دیگر امور میں ان اموال سے چندان، استفادہ نہیں ہوا کیونکہ وہ غالباً خرید وفروش سے معذور تھے_

آخر میں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ مکہ میں اموال کی جس قدر بھی کثرت ہوتی لیکن پھر بھی اس کے وسائل محدود تھے کیونکہ مکہ کوئی غیرمعمولی یابہت بڑا شہر نہ تھا _ البتہ بستی یا گاؤں کے مقابلے میں بڑا تھا، اسی لئے قرآن نے اسے ام القری (بستیوں کی ماں یعنی مرکزی بستی) کا نام دیا ہے _بنابریں اس قسم کے چھوٹے شہروں کے مالی وسائل بھی محدود ہی ہوتے ہیں_

مسلمانوں کے متعلق حکیم بن حزام کے جذبات

پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ابن اسحاق وغیرہ کی روایت کے مطابق حکیم بن حزام بھی مسلمانوں کیلئے شعب ابوطالب میں چھپ چھپاکر سامان خورد ونوش بھیجا کرتا تھا(۱) لیکن ہم اس بات کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے، کیونکہ حکیم بن حزام ان افراد میں سے تھا جسے شب ہجرت قریش نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو قتل کرنے کے لئے اپنے ساتھ شامل کیا تھا(۲) اور موقع کے انتظار میں انہوں نے تمام رات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے دروازے پر گذاردی لیکن خدانے ان کی چال اپنے پر پلٹا دی _ مزید یہ کہ یہی حکیم بن حزام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے عہد میں مدینہ پہنچنے والی

___________________

۱_ رجوع کریں: سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۷۹ نیز سیرت کی دیگر کتب کی طرف_

۲_ بحار الانوارج ۱۹ ص ۳۱ و مجمع البیان ج ۴ ص ۵۳۷ _