خدا تمہیں کسی بے جا سختی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک و پاکیزہ کرے اور تم لوگوں پر اپنی نعمتوں کو کامل کرے تاکہ تم شکرگزار بنو_
آیات قرآنی کی طرف رجوع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ بہت ساری آیات مذکورہ حقیقت پر واضح طور پر دلالت کرتی ہیں_ بنابرایں مزید دلائل و شواہد اور توضیح و تشریح کی ضرورت باقی نہیں رہتی_
وزیر اور وصی کی ضرورت
جب ہمیں اسلام کے اصلی مقصد کا علم ہوگیا ہے تو ہم یہ بھی جان سکتے ہیں کہ یہ مقصد نہایت ہی مشکل اور کٹھن ہے_ اس لئے کہ ابتداء ہی میں یہ ہدف اشخاص کی ذات سے ہی متصادم ہے _ کیونکہ اس مقصد کے تحقق کے لئے افراد کے عزائز اور نفسانی خواہشات پر غلبہ پانا ضروری ہے تاکہ مثالی انسان کی شخصیت تعمیر ہوسکے_ اسی طرح معاشرے کی معاشرتی ، سیاسی اور دیگر اصولوں کی بنیادی تبدیلیوں کا ہدف ہے_ تا کہ شرکی جڑیں اکھاڑ پھینکے اور انحراف کے تمام عوامل و اسباب کو ختم کرڈالے _ اور اس کے بدلے میں خیر ، برکت ، نیکی اور خوشبختی کے تناور درخت اگائے_
جی ہاں یہی تو نہایت مشکل ہدف ہے اور اس سے بڑھ کر مشکل کوئی چیز نہیں _ اس لئے کہ اس کے تحقق اور دوام کے لئے اس وقت تک سخت اور مسلسل جد و جہد کی ضرورت ہے جب تک انسان اپنے اندر وہ تبدیلیاں نہ پالے جس کے لئے خدا نے اسے خلق کیا ہے تا کہ یہ تبدیلیاں اس کی بقاء ، سعادت اور سکون کی عامل بنیں_اور خدا نے بھی انسان کو ان خواہشات پر قابو پانے اور انہیں ہدف مند کرنے کے وسائل فراہم کئے ہیں_ لیکن بسا اوقات یہ وسائل ان خواہشات پر قابو پانے میں ناکام ہوجاتے ہیںاور جب تک ان کے درمیان جنگ جاری ہے انحراف کے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں_ اور چونکہ طول زمانہ میں انسان کے وجود کے ساتھ جنگ بھی جاری رہے گی _ اس لئے انحراف اور بھٹکنے کا خطرہ بھی دائمی رہے گا پس انبیاء کو عقل کو مسحور کردینے والی آیتوں کی تلاوت اور اسلامی احکام کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور تزکیہ کی مہم پر توجہ دینے ،