انسانی اور اخلاقی فضائل کو انسان کی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھرنے اور پھر اس کی تطبیق اور اس دائمی کشمکش کی نگرانی کرنے کی ضرورت رہے گی _انہی باتوں سے نبی کے وزیر ، وصی ، مددگار ، بھائی اور حامی کی ضرورت واضح ہوتی ہے _ پس رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم کریم کی جانب سے خلافت پر حضرت علیعليهالسلام کی تنصیب ،راہ جہاد اور دعوت الی اللہ کے سلسلے میں ایک عقلمندانہ فیصلہ تھا _ پس دعوت ذوالعشیرة اور اس میں حضرت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم کے وصی ، وزیر اور خلیفہ کے عنوان سے حضرت علیعليهالسلام کی تنصیب کا واقعہ ان بہت زیادہ واقعات میں سے ایک ہے جن میں اس امر خلافت پر قوت اور شدت کے ساتھ تاکید کی گئی ہے_ دعوت ذوالعشیرة کا واقعہ کچھ یوں ہے:
دعوت ذوالعشیرہ
بعثت کے ابتدائی تین سالوں کے بعد ایک اہم، جدید اورکٹھنمرحلہ کا آغاز ہوا اور وہ تھا اسلام کی طرف اعلانیہ دعوت کا مرحلہ_
پہلے پہل نسبتاً ایک محدود دائرے سے اس کی ابتدا ہوئی کیونکہ خدا کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی_ (وانذر عشیرتک الاقربین)(۱) یعنی اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو (کفر و گمراہی کے عذاب سے) ڈراؤ_
مؤرخین کے بقول ( الفاظ تاریخ طبری کے ہیں) جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم نے حضرت علیعليهالسلام کو بلاکر کھانا تیار کرنے اور بنی عبدالمطلب کو دعوت دینے کا حکم دیا تاکہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم ان کے ساتھ گفتگو کرکے حکم الہی کو ان تک پہنچاسکیں_
پس حضرت علیعليهالسلام نے ایک صاع (تقریباً تین کلو) آٹے کی روٹیاں تیار کرائیں اور بکرے کی ایک ران بھی پکالی نیز دودھ کا کاسہ بھی بھر کر رکھ دیا_ بعدازاں انہیں دعوت دی حالانکہ اس وقت ان کی تعداد چالیس کے لگ بھگ تھی جن میں آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم کے چچا ابوطالب، حمزہ، عباس اور ابولہب بھی شامل تھے_ حضرت علیعليهالسلام کا
___________________
۱_ سورہ شعرائ، آیت ۲۱۴_