ایک نے بھی ابوطالبعليهالسلام جیسی خدمات کا دسواں حصہ انجام دیا ہوتا تو اس کی خوب تعریفیں ہوتیں اور اسے زبردست خراج تحسین پیش کیاجاتا _اس کی شان میں احادیث کے ڈھیر لگ جاتے_ نیز دنیوی و اخروی لحاظ سے اس کی کرامتوں اور شفاعتوں کا زبردست چرچاہوتا بلکہ ہر زمانے اور ہر مقام پر ان چیزوں میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہتا_
عجیب بات تو یہ ہے کہ معاویہ کا باپ ابوسفیان جس نے حضرت عثمان (کے خلیفہ بننے کے بعد ان )کی محفل میں یہ کہا: '' یہ حکومت تیم اور عدی سے ہوتے ہوئے اب تم تک آئی ہے اسے اپنے درمیان گیند کی طرح لڑھکا تے رہو اور بنی امیہ کو اس حکومت کے ستون بناؤ ، کیونکہ یہ تو صرف حکومت کا کھیل ہے_ قسم ہے اس کی جس کی ابوسفیان قسم کھاتا ہے نہ جنت کی کوئی حقیقت ہے نہ جہنم کی''(۱) وہ تو ان کی نظر میں مؤمن متقی عادل اور معصوم ٹھہرا لیکن حضرت ابوطالب (بہ الفاظ دیگر حضرت علیعليهالسلام کے والد) کافر و مشرک ٹھہرے اور جہنم کے ایک حوض میں ان کا ٹھکانہ ہو جس کی آگ ان کے ٹخنوں تک پہنچے اور جس کی حرارت سے ان کا دماغ کھولنے لگے_ (نعوذ باللہ من ذلک) آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
ابولہب اور پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم کی نصرت؟
مذکورہ بالا معروضات کے بعداس بات کی طرف اشارہ ضروری ہے جس کا بعض لوگ اس مقام پر ذکر کرتے ہیں اور وہ یہ کہ ابوطالبعليهالسلام کی وفات کے بعد ابولہب نے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم کی مدد کرنے کیلئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا _ قریش نے از راہ حیلہ ابولہب سے کہا کہ پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم کہتا ہے کہ تمہارا باپ عبدالمطلب جہنمی ہے_ ابولہب نے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم سے سوال کیا تو آپصلىاللهعليهوآلهوسلم نے اسے جو جواب دیا وہ ان لوگوں کے قول کے مطابق تھا پس ابولہب نے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا پھر زندگی بھر آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کی دشمنی اختیار کی_(۲)
___________________
۱_ النزاع و التخاصم ص ۲۰ عجیب بات یہ بھی ہے کہ معاویہ جس کے باپ کے نظریات او پر مذکور ہوچکے ہیں اور بیٹا یزید جو یہ کہتا ہو کہ ''لعبت ہاشم بالملک فلا خبر جاء و لا وحی نزل'' بنی ہاشم نے حکومت کا کھیل کھیلا وگرنہ حقیقت میں نہ تو کوئی خبر آئی ہے نبوت کی اور نہ ہی کوئی وحی اتری ہے _ یہ سب کے سب اور ان کے ماننے والے تو پکے مسلمان لیکن ابوطالب اورانہیں مسلمان ماننے والے ؟ از مترجم _
۲_ بطور مثال رجوع کریں : البدایة والنہایة ج۳ ص ۴۳ از ابن جوزی اور تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۰۲_