کہتے ہیں کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم نے مکہ پہنچنے کے پہلے ہی دن اس کی امان سے نکلنے کا فیصلہ کیا لیکن کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم اس کی امان میں کچھ مدت تک باقی رہے_
یہ ہے مختصر طور پر وہ واقعہ جسے مورخین نے ہجرت طائف اور وہاں سے واپسی کے متعلق بیان کیا ہے_
مزید ہجرتیں
یہ بھی کہتے ہیں کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے چچا حضرت ابوطالب کی رحلت کے بعد حضرت علیعليهالسلام کو لیکر بنی صعصعہ کے ہاں چلے گئے لیکن انہوں نے مثبت جواب نہ دیا_ یوں آپصلىاللهعليهوآلهوسلم دس دن مکہ سے باہر رہے_ اس کے علاوہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم نے حضرت علیعليهالسلام اور حضرت ابوبکر کے ساتھ بنی شیبان کے ہاں بھی ہجرت اختیار کی_ اس دفعہ حضورصلىاللهعليهوآلهوسلم تیرہ دن مکہ سے باہر رہے لیکن وہاں سے بھی کسی قسم کی مدد حاصل نہ کرسکے_(۱)
یہاں ہم توقف کرتے ہیں تاکہ مذکورہ بالا باتوں سے مربوط بعض ایسے نکات کی وضاحت کریں جو ہماری دانست میں ایک حدتک اہمیت کے حامل ہیں_ یہ نکات درج ذیل ہیں:
۱_ عداس کا قصہ
رہا عداس کا مذکورہ کردار اور پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم کا اس کے لائے ہوئے انگور کو تناول فرمانا تو یہ بات ہمارے نزدیک مشکوک ہے جس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
(الف) پہلے بیان ہوچکا ہے کہ نبی کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم کسی مشرک کے تحفے کو قبول نہیں کرتے تھے_ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کو منظور نہ تھا کہ مشرک کا آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کے اوپر کوئی احسان ہو جس کے بدلے میں وہ آپ کے احسان کا مستحق بنے_ پھر آپصلىاللهعليهوآلهوسلم نے کیونکر ربیعہ کے مشرک بیٹوں کا ہدیہ قبول فرمایا؟ اور کیسے راضی ہوئے کہ ان کا احسان اٹھائیں؟صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے عداس کا ہدیہ قبول فرمایا تھا اور یہ نہیں جانتے تھے کہ اسے ان لوگوں نے بھیجا ہے _
___________________
۱_ شرح نہج البلاغة معتزلی ج ۴ص ۱۲۶ _