''تم میں سے کون اس امر میں میرا مددگار ہوگا تاکہ وہ میرا بھائی اوروغیرہ وغیرہ ہو یہاں تک کہ فرما یا یہ میرا بھائی وغیرہ وغیرہ ہے''_*
ابن کثیر شامی نے بھی یہاں طبری کی تقلید کی ہے چنانچہ اس نے اس حدیث کو تاریخ طبری کی بجائے تفسیر طبری سے نقل کیا ہے حالانکہ تاریخ لکھتے وقت اس نے تاریخ طبری پر اعتماد کرتے ہوئے اسے اپنی تاریخ کا ماخذ قرار دیا ہے_(۱)
اسی طرح محمد حسین ھیکل (مصری) نے بھی ''حیات محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم '' نامی کتاب کے پہلے ایڈیشن کے صفحہ ۱۰۴ پر تاریخ طبری سے مذکورہ حدیث نقل کی ہے لیکن دوسرے ایڈیشن مطبوعہ (۱۳۵۴ ھ) کے صفحہ ۱۳۹ میں ''و خلیفتی فیکم'' کے الفاظ حذف کردیئے اور ''و یکون اخی و وصیی'' لکھنے پر اکتفا کیا ہے_ یہ کام اس نے پانچ سو جنیة (مصری کرنسی) کی وصولی یا اس کتاب کے ایک ہزار نسخوں کی خریداری کے عوض انجام دیا_(۲)
ابن تیمیہ اور حدیث الدار(۳)
ادھر ابن تیمیہ نے بھی سید الاوصیاء امیرالمومنین حضرت علیعليهالسلام کے فضائل کو جھٹلانے کے سلسلے میں اپنی عادت کے مطابق حدیث دار کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے_ ابن تیمیہ نے اس حدیث پر جو اعتراضات کئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے_
___________________
۱_ تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۳۵۱ نیز البدایة و النہایة ج ۳ ص ۴۰ والسیرة النبویة از ابن کثیر ج ۱ ص ۴۵۹_
خلاصہ یہ کہ طبری نے اپنی تفسیر میں ''وصیی وخلیفتی فیکم'' کے الفاظ کو حذف کر کے انکی جگہ کذا وکذا کے مبہم الفاظ لکھ کر تحریف میں اپنی مہارت کا ثبوت دیا ہے_ (مترجم)
۲_ رجوع کریں: فلسفة التوحید و الولایة ص ۱۷۹ و ص ۱۳۲ و سیرة المصطفی ص ۱۳۱ و۱۳۰_
۳_ دعوت ذوالعشیرہ والی روایتیں حدیث الدار اور حدیث انذار کے نام سے بھی معروف ہیں لیکن اردو میں یہ واقعہ دعوت ذوالعشیرہ سے ہی معروف ہے (مترجم)_