ابن کثیر کا عقیدہ بھی ہمارے اس قول کے مطابق ہے کہ یہ واقعہ بعثت کے ابتدائی دنوں کا ہے_(۱) اس بات کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ بعض روایات کے مطابق جس رات جنوں نے اسلام قبول کیا ابن مسعود آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھ تھے(۲) جبکہ ابن مسعود مہاجرین حبشہ میں سے ایک ہیں، بنابریں یہ واقعہ لازمی طور پر ہجرت حبشہ سے قبل کا ہونا چاہی ے یعنی بعثت کے پانچویں سال سے پہلے کا_
۴_ طائف اور آس پاس والوں سے روابط
طائف والوں کا اہل مکہ اور آس پاس والوں سے اقتصادی رابطہ تھا کیونکہ اہل طائف مکہ اور دیگر علاقوں کو پھل برآمد کرتے تھے_
بنابر این وہ اپنے مستقبل کو اقتصادی اور معاشرتی طور پر دوسروں کے ساتھ منسلک دیکھتے تھے_ اس بات کے پیش نظر طائف والوں کو ان لوگوں کے ساتھ نزدیکی تعلقات اور روابط استوار رکھنے اور ان کی خوشنودی و رضامندی حاصل کرنے کی ضرورت تھی تاکہ ان کو آس پاس والوں خاص کراہل مکہ (جو ان کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی تھا) کی طرف سے معاشرتی دباؤ یااقتصای بائیکاٹ کاسامنا نہ کرنا پڑے (جیساکہ بنی ہاشم کو سامنا کرنا پڑا)_
محقق روحانی نے اس نکتے کا اضافہ کیا ہے کہ مکہ والوں کے ہاں ایک بُت تھا جسے عزی کہتے تھے_ اس بت کے مخصوص خادم تھے_ اہل عرب اس بت کی زیارت کرتے تھے،(۳) بنابریں اہل مکہ کو عربوں کے درمیان ایک قسم کی دینی مرکزیت حاصل تھی، جس کی وہ سختی سے حفاظت کرتے تھے_
یہاں سے ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ اہل طائف نے نبی کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھ سختی کیوں برتی اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کو جلد سے جلد نکال دینے کے در پے کیوں ہوئے؟
___________________
۱_ تاریخ الخمیس ج ۱ص ۳۰۳مواھب اللدنیة سے _
۲_ تاریخ الخمیس ج ۱ص ۳۰۴ _
۳_ الاصنام (کلبی)ص۱۶ ، حاشیہ سیرہ حلبیہ پر السیرة النبویہ و حلان ج ۳ ص ۱۱ اور تاریخ الخمیس ج ۲ ص ۱۳۵_