9%

۱_ حکومت فقط خداکی

(الف) رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ان لوگوں کے مطالبے پر ان کے ساتھ ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد حکومت ان کوملے گی بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تو یہ جواب دیا کہ حکومت کا فیصلہ خداکے اختیار میں ہے جسے چا ہے عطا کرے_ بالفاظ دیگر یہ بات ممکن نہ تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسا وعدہ فرماتے جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بس سے باہر ہوتا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ روش عصر حاضر کے سیاستدانوں کی روش کے بالکل برعکس ہے جو خوبصورت وعدوں کے ڈھیر لگانے سے نہیں کتراتے_ پھر جب وہ اپنے مقاصد کو پالیتے ہیں اور اقتدار کی کرسی پر قبضہ جمالیتے ہیں تو سارے وعدے بھول جاتے ہیں_

لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے باوجود اس کے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مددگاروں کی شدید ضرورت تھی بالخصوص ایسے بڑے قبیلے جو تعداد اور وسائل کے لحاظ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دفاع اور مدد کرنے کے قابل تھے، اگرچہ یہ وعدہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے نہایت سودمند ہوتا لیکن اس کے باوجود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسا وعدہ کرنے سے انکار فرمایا جس کا پورا کرنا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بس سے باہر تھا_

(ب) ان لوگوں کے جواب میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس ارشاد سے کہ حکومت اللہ کے اختیار میں ہے جسے چاہے عطا کرتا ہے ، اہلبیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شیعیان اہلبیتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عقیدے کی تائید ہوتی ہے کہ خلافت ایسا منصب نہیں ہے جس کااختیار لوگوں کے ہاتھ میں ہو بلکہ یہ ایک آسمانی منصب ہے جس کا اختیار فقط خداکے پاس ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے_

۲_ ہدف کی بلندی اور تنگ نظری

بدیہی بات ہے کہ اس قبیلے کی طرف سے مذکورہ طریقے پر مدد کی پیشکش کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا مقصد رضائے الہی کیلئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کرنا نہ تھا اور نہ ان کا یہ موقف ایمان راسخ اور پختہ عقیدے کی بنیادوں پر استوار تھا_ نیز ان میں ثواب آخرت کا شوق تھا نہ ہی عقاب الہی کا خوف_