دوسرے اعتراض کا جواب
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ''عبد'' کا اضافہ راویوں نے کیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ بعض روایات میں صریحاً بیان ہوا ہے کہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم نے بنی ہاشم کو دعوت دی_(۱) کچھ اور روایات میں یوں ذکر ہوا ہے کہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم نے تمام بنی عبدالمطلب کو اور بنی مطلب کے بعض افراد کو دعوت دی(۲) بنابرایں شاید راوی نے غلط فہمی سے مطلب کی جگہ عبدالمطلب لکھ دیا ہے_ اس قسم کی غلطیاں اکثردیکھنے میں آتی ہیں_ اس بیان کی روشنی میں واضح ہوا کہ مذکورہ اعتراض اصل واقعہ (جو متفق علیہ ہے) کے جھٹلانے کا باعث نہیں بن سکتا_ جب حضرت عبدالمطلب کے دس بیٹے تھے اور اس وقت ان کے سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر بھی ساٹھ سال کے قریب تھی پھر جب ان کی اولاد کو بھی ساتھ ملالیں تو کیسے چالیس تک نہیں پہنچیںگے ؟ بلکہ وہ تو اس سے بھی بہت زیادہ ہوجائیں گے پس اس تعداد کو بعید جاننے کی کیا وجہ ہے؟
تیسرے اعتراض کا جواب
شیخ مظفر نے اس کا جواب یوں دیا ہے_ ''کھانے پینے میں ان کا مشہور نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ حقیقت میں بھی وہ ایسے نہ تھے بلکہ ان کا ایسا ہونا عین ممکن ہے اور اگر ہم تسلیم کرلیں کہ وہ اس حد تک نہ کھاتے تھے تو پھر مذکورہ بات سے یہی مطلب نکلتا ہے کہ راوی نے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم کے اس معجزے کو بیان کرنے میں مبالغہ سے کام لیا ہے کہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم نے بھیڑ کی ایک ران سے ان سب کو سیر کیا اور دودھ کے ایک برتن سے انہیں سیراب کیا''_(۳)
___________________
۱_ السیرة النبویة از ابن کثیر ج ۱ ص ۴۵۹ از ابن ابی حاتم نیز البدایة و النہایة ج ۳ ص ۴۰ اور رجوع کریں کنز العمال ج ۱۵ ص ۱۱۳، مسند احمد ج ۱ ص ۱۱۳، تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۳۵۰، ابن عساکر، زندگی نامہ امام علی بہ تحقیق المحمودی ج ۱ ص ۸۷ و اثبات الوصیة (مسعودی) ص ۱۱۵ تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۲۷ اور مسند البزار خطی نسخہ در کتابخانہ مراد نمبر ۵۷۸_
۲_ الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۶۲_
۳_ دلائل الصدق ج ۲ ص ۲۳۵ _