9%

ساری خیانتوں کا مشاہدہ کرنے کے عادی ہوگئے ہیں_ یہ ضرب المثل کس قدر سچی ہے کہ ''لامر ما جدع قصیر انفہ'' (قصیر نامی شخص نے کسی کام کے واسطے اپنی ہی ناک کاٹ دی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بعض لوگ حصول غرض کی خاطر ہرقسم کا وسیلہ استعمال کرتے ہیں)_

ممکن ہے کوئی یہ سوال کرے کہ فقط دو افراد کا قریش کے مقابلے میں کھڑے ہوکر ان کو پیچھے ہٹا دینا کیسے ممکن ہے؟ جبکہ ان کا غیظ و غصب نقطہ عروج پر تھا_

اس کا جواب یہ ہے کہ قریش کی سازش کا جواب دینے کیلئے ایک شخص بھی کافی تھا_ وہ اس طرح کہ ایک یا دو آدمی درے کے دھانے پر کھڑے ہوجاتے (جہاں سے فقط چند افراد یا چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کا گزرنا ہی ممکن تھا) یوں پہلی ٹولی کو پسپا کر کے باقیوں کو بھی پیچھے ہٹایا جاسکتا تھا چنانچہ عمرو بن عبدود (جو حضرت علیعليه‌السلام کے ہاتھوں قتل ہوا) کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ہزار شہسواروں کا مقابلہ کرنے کیلئے کافی تھا_ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے درے کے دھانے پر کھڑے ہوکر ہزار سواروں کو اس میں داخل ہونے سے روکا تھا کیونکہ جگہ کی تنگی کے باعث ہزار آدمی ایک ساتھ داخل نہیں ہوسکتے تھے_

ملاقات کو خفیہ رکھنے کی وجہ

اس ملاقات کو خفیہ رکھنے پر خاص توجہ دی گئی یہاں تک کہ جو لوگ مسلمانوں کے ساتھ کاروانوں میں سوئے ہوئے تھے ان کو بھی کوئی بھنک نہ پڑسکی اور انہیں اپنے ساتھیوں کی عدم موجودگی کا احساس بھی نہ ہوا_ یہی حال اس اجتماع کے وقت، مقام اور طریقہ کار کا بھی تھا_ حالانکہ یہ ایک نسبتاً بڑا اجتماع تھا اور یہ باتیں ان مسلمانوں کی آگاہی، بیداری اور حسن تدبیر کی عمدہ مثال اور مضبوط دلیل ہیں_

علاوہ برایں یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ جب مسلمان ظالم اور جابر طاقتوں کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو اس وقت مخفیانہ طرز عمل اپنانا شکست اور پسپائی نہیں_یہاں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تقیہ (جس کے معتقد شیعہ اور اہلبیت معصومینصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں اور جس کا قرآن نے حکم دیا ہے نیز جو