کامیابی ہوتی یا ناکامی نتیجتاً بنی ہاشم اور قریش کے روابط نہایت کشیدہ ہوجاتے اور رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ کے مکہ میں رہنے کی صورت میں حالات بدترہوجاتے_ ادھر خدا کا قانون یہ رہا ہے کہ وہ کسی شخص کو اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے سے جبری طور پر نہیں روکتا_ ہاں جب دین اور انسانیت کی حفاظت کیلئے نبی کی حفاظت ضروری ہو تو اس صورت میں اللہ کی عنایات نبی کے شامل حال ہوتی ہیں اور دشمن اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے سے عاجز رہتے ہیں_
خلاصہ یہ کہ ان حالات میں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کے اصحاب کیلئے مکہ سے نکل کر کسی ایسے پرامن مقام کی طرف جانا ضروری ہوگیا تھا جہاں وہ زیادہ بہتراور جامع صورت میں اپنی دعوت کو پھیلانے اور اپنے مشن کو لوگوں تک پہنچانے کی جدوجہد کرسکتے_
مدینہ کے انتخاب کی وجہ
رہا یہ سوال کہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم خدانے دوسرے مقامات مثلاً حبشہ وغیرہ کو چھوڑ کر مدینہ کو کس بنا پر اپنی ہجرت اور اپنی دعوت کا مرکز منتخب کیا؟
اس سوال کے جواب میں کئی ایک اسباب کا ذکر کیا جاتا ہے _یہاں ان میں سے درج ذیل کا تذکرہ کرتے ہیں:
۱_مکے کو لوگوں کے ہاں ایک خاص روحانی مقام حاصل تھا _بنابریں مکے پر تسلط حاصل ہوئے بغیر، نیز بت پرستوں کے اثر ونفوذ کوختم کر کے اس کی جگہ اسلام کی قوت کو جاگزین کئے بغیر آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کی دعوت کامیابی سے ہمکنار نہ ہوتی اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کی تمام کوششیں رائیگاں جاتیں_ کیونکہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کی دعوت کو مکے کی اسی قدر ضرورت تھی جس قدر مکے کو اس دعوت کی_
اسلئے مکے سے قریب ہی ایسے مقام کا انتخاب ضروری تھا جہاں سے بوقت ضرورت مکے پر اقتصادی وسیاسی بلکہ فوجی دباؤ بھی ڈالاجاسکتا ہو کیونکہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کو مکے پر تسلط حاصل کرنے کی ضرورت تھی_