4%

پانچویں اور آخری اعتراض کا جواب

یہ آخری اعتراض تو کسی صورت میں بھی درست نہیں کیونکہ اولاً: جناب حمزہعليه‌السلام کا قبول اسلام اس وقت مانع بن سکتا ہے جب یہ آیہ انذار کے نزول سے قبل واقع ہوا ہو اور ہم تو اس کا احتمال بھی نہیں دے سکتے چہ جائیکہ اس کا یقین کریں_

کیونکہ جناب حمزہعليه‌السلام کے قبول اسلام کی کیفیت میں منقول روایات کی رو سے صریحاً نہیں تو بظاہر یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ آپ اعلانیہ دعوت اسلام کے بعد اس وقت مسلمان ہوئے جب قریش کھل کر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت پر اتر آئےتھے اور حضرت ابوطالب کے ساتھ ان کے مذاکرات بھی ہوچکے تھے_

ثانیاً: اگر ہم مذکورہ بات کو تسلیم بھی کرلیں(۱) تو ممکن ہے دعوت ذوالعشیرہ کا واقعہ خفیہ دعوت کے دوران اورجناب حمزہ کے قبول اسلام سے پہلے پیش آیا ہو_ البتہ یہ اس صورت میں ممکن ہے جب حضرت حمزہ کا قبول اسلام بعثت کے دوسرے سال واقع ہوا ہو اورجناب حمزہ اور ابوجہل کے درمیان پیش آنے والا واقعہ ایک حد تک دعوت اسلام کو آشکار کرنے کا باعث بنا ہو_ اور قریش نے خفیہ دعوت کے دوران ہی نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہو_ رہا مسئلہ دوسرے مسلمانوں کا تو ان کے ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے روابط مخصوص طرز پر تھے اور ان کے قبول اسلام کے بارے میں رازداری برتی جاتی تھی_ ہماری بات کی تائید اس آیت (فاصدع بما تو مر) سے ہوتی ہےکیونکہ اسی آیت کے باعث اسلام کی خفیہ دعوت نے اعلانیہ دعوت کی شکل اختیار کرلی اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دعوت ذوالعشیرہ کا واقعہ اس سے پہلے کا ہے_

ثالثاً: اگر حضرت حمزہ اس وقت اسلام لابھی چکے ہوتے تو ان کی مثال حضرت ابوطالب جیسی تھی اور ان دونوں نے اپنے آپ کو اس دعوت کا مطلوب و مقصود ہی نہ سمجھا تھا (یعنی ان دونوں کو علم تھا کہ اس دعوت سے ہم مراد نہیں ہیں) خصوصاً جب وہ دیکھ رہے تھے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ان کا زندہ رہنا نہایت مشکل ہے_ کیونکہ حضرت حمزہ تقریباً حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہم عمر تھے اور حضرت ابوطالبعليه‌السلام تو نہایت عمر رسیدہ تھے اور حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات تک

___________________

۱_ کہ جناب حمزہعليه‌السلام نے خفیہ دعوت اسلام کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا _ (مترجم)