نیز رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ حضرت ابوبکر کے حزن، خوف و ہراس اور رونے کی وجہ کچھ اور ہے_ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم اگرچہ یہ جانتے تھے کہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کو آخر کار اس خطرے سے نجات مل جائے گی لیکن حضرت ابوبکر کی روش مشکلات اور مسائل پیدا کرے گی اور وہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کیلئے ان مقاصد اور اہداف تک پہنچنے میں تاخیر کا باعث بنیں گے جن کا مرحلہ ابھی دور تھا_
د: علامہ طباطبائی کا نظریہ یہ ہے کہ اس آیت سے قبل اللہ کی طرف سے ان حالات میں اپنے نبیصلىاللهعليهوآلهوسلم کی مدد کا ذکر ہوا ہے جبکہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کے ساتھ کوئی فرد ایسا نہ تھا جو آپ کی مدد کرسکتا_ اس مدد کی ایک صورت نزول سکینہ اور خدائی لشکروں کے ذریعے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کی تقویت تھی_لفظ (اذ) کا تین بار تکرار اس بات کی دلیل ہے_ ان میں سے ہرایک پہلے والے کی کسی نہ کسی صورت میں توضیح کرتا ہے_ یہ لفظ اس مقام پر کبھی نصرت الہی کا وقت بیان کرنے کیلئے، کبھی آپ کی حالت بیان کرنے کیلئے اورکبھی اس حالت کا وقت بیان کرنے کیلئے استعمال ہوا ہے_ بنابریں خدائی لشکروں کے ذریعے اس شخص کی تائید کی گئی جس پر سکون کا نزول ہوا تھا_(۱)
محقق محترم سید مہدی روحانی کہتے ہیں: ''چونکہ حضرت ابوبکر نے غم نہ کھانے اور خوف نہ کرنے کے بارے میں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ کے حکم کی تعمیل نہ کی، اس لئے سکینہ کا نزول فقط رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ پر ہوا_ اور ابوبکر (اطمینان قلبی سے) محروم ہی رہے_ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر اللہ کے اس فضل وکرم کے اہل ہی نہ تھے''_
شیخ مفید کا بیان اور اس کا جواب
شیخ مفید اور دیگر افراد کہتے ہیں کہ اگر حضرت ابوبکر کا حزن اطاعت خدا کیلئے تھا تو رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اطاعت الہی سے منع کریں_ بنابریں ایک راہ رہ جاتی ہے وہ یہ کہ مذکورہ عمل حرام تھا، اسی لئے
___________________
۱_ تفسیر المیزان ج ۹ ص ۲۸۰ مطبوعہ بیروت_