صہیب کا واقعہ اور ہمارا نقطہ نظر
نقل کرتے ہیں کہ جب رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ نے غار کی طرف حرکت کا ارادہ فرمایا تو حضرت ابوبکر کو دو یا تین بار صہیب کے پاس بھیجا_ انہوں نے صہیب کو نماز پڑھتے پایا چنانچہ انہیں اچھا نہ لگا کہ وہ نماز توڑ دیں_ جب واقعہ ہوچکا تو صہیب حضرت ابوبکر کے گھر آئے اور اپنے دونوں بھائیوں (ابوبکر اور رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ ) کے بارے میں پوچھا_ چنانچہ انہیں واقعے کے بارے میں بتایا گیا_ نتیجتاً وہ اکیلے ہی ہجرت کیلئے آمادہ ہوگئے لیکن مشرکین نے انہیں نہ چھوڑا یہاں تک کہ انہوں نے اپنا مال ومتاع ان کے حوالے کردیا_ جب قباء کے مقام پر رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ کے ساتھ مل گئے تو آپصلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا صہیب فائدے میں رہا صہیب فائدے میں رہا_ یا فرمایا اس کی تجارت سود مند رہی چنانچہ خداوند عالم نے یہ آیت اتاری( ومن الناس من یشری نفسه ابتغاء مرضات الله ) (۱)
اس روایت کے الفاظ مختلف ہیں جیساکہ تفسیر درمنثور اور دیگر تفاسیر کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے _یہاں اتنا کہناہی کافی ہے کہ ان میں سے ایک روایت کے مطابق یہ آیت اس وقت اتری جب مشرکین نے صہیب کو سزا دینے کیلئے پکڑ لیا_ اور صہیب نے کہا میں ایک بے ضرربوڑھا آدمی ہوں خواہ میرا تعلق تم سے ہو یا تمہارے غیر سے_ کیا تم میرا مال لیکر مجھے اپنے دین کے معاملے میں آزاد نہیں چھوڑ سکتے؟ نتیجتاً انہوں نے ایسا ہی کیا_(۲)
ایک اور روایت نے اس کا تذکرہ اس واقعے کی طرح کیا ہے جو حضرت علیعليهالسلام کے ساتھ ہجرت کے وقت پیش آیا یعنی جب مشرکین انکی دھمکی سے ڈر کر واپس چلے گئے تھے_(۳)
___________________
۱_ الاصابة ج ۲ (صہیب کے ذکر میں)، السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۲۳ و ۲۴، الدر المنثور ج ۱ ص ۲۰۴ از ابن سعد، ابن ابی اسامہ، ابن منذر، ابن ابی حاتم و ابونعیم '' الحلیة '' میں اسی طرح ابن عساکر، ابن جریر، طبرانی، حاکم، بیہقی در الدلائل اور ابن ابی خیثمہ سے (عبارات میںکچھ اختلاف ہے) _
۲_ السیرة الحلبیة ج ۳ ص ۱۶۸ _
۳_ السیرة الحلبیة ج ۳ ص ۱۶۸ _