حضرت عثمان اور واقعہ غار
ابن مندہ نے ایک بے بنیاد سند کے ساتھ اسماء بنت ابوبکر سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا''جب میرا باپ غار میں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ کے ساتھ تھا تو میں اس کیلئے کھانا لے گئی تھی اس وقت حضرت عثمان نے آنحضرتعليهالسلام سے اذن ہجرت مانگا اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کو حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت دی''_(۱) لیکن یہ بات واضح ہے کہ حضرت عثمان نے واقعہ غار سے آٹھ سال پہلے حبشہ کو ہجرت کی تھی_ اگر کوئی یہ کہے کہ یہاں غار سے مراد غار ثور نہیں بلکہ کوئی اور غار ہے تو اس کاجواب یہ ہے کہ یہ بات دلیل کی محتاج ہے اور ہم تاریخ میں کوئی ایسی دلیل نہیں پاتے کہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کسی اور غار میں داخل ہوئے ہوں اور اس میں حضرت ابوبکر کے ساتھ ایک مدت تک رہے ہوں_ ان باتوں سے قطع نظر پہلے گزر چکا ہے کہ اسماء کا ان دونوں کیلئے غار میں کھانا پہنچانے والی بات ہی بے بنیاد ہے کیونکہ حضرت علیعليهالسلام ہی آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم کے لئے غار میں کھانا لے کر جاتے تھے_
یوم غار اور یوم غدیر
ابن عماد وغیرہ نے کہا ہے کہ شیعہ حضرات کئی صدیوں سے عاشورا کے دن اپنے آپ کو پیٹنے اور رونے دھونے نیز عید غدیر کے دن قبے بنانے، زیب و زینت کرنے اور دیگر مراسم کے ذریعے اپنی گمراہی کا ثبوت دیتے آئے ہیں_ اس کے نتیجے میں متعصب سنی طیش میں آئے اور انہوں نے یوم غدیر کے مقابلے میں ٹھیک آٹھ دن بعد یعنی ۲۶ ذی الحجہ کو یوم غار منانے کی بنیاد رکھی اوریہ فرض کرلیا کہ نبی کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم اور حضرت ابوبکر اس تاریخ کو غار میں پنہاں ہوئے تھے_ حالانکہ یہ بات جہالت اور غلطی پر مبنی ہے کیونکہ غار والے ایام کا تعلق قطعی طور پر ماہ صفر اور ربیع الاول کی ابتدا سے ہے''_(۲)
___________________
۱_ کنز العمال ج۲۲ ص ۲۰۸ از ابن عساکر اور الاصابة ج ۴ ص ۳۰۴ _
۲_ شذرات الذہب ج ۳ ص ۱۳۰ و الامام الصادق و المذاھب الاربعة ج ۱ ص ۹۴ و بحوث مع اہل السنة و السلیفة ص ۱۴۵ و المنتظم (ابن جوزی) ج ۷ ص ۲۰۶ ، البدایہ والنہایہ ج۱۱ ص ۳۲۵ ، الخطط المقریزیہ ج۱ ص ۳۸۹ ، الکامل فی التاریخ ج۹ص ۱۵۵ ، نہایة الارب (نویری) ج۱ ص ۱۸۵ ، ذیل تجارب الامم (ابوشجاع) ج۳ ص ۳۳۹ ، ۳۴۰ و تاریخ الاسلام ذہبی (واقعات سال ۳۸۱_ ۴۰۰ ) ص ۲۵_