مشکلات کے بعد معجزات
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کی واضح کرامات اور روشن معجزات کے سامنے مذکورہ معجزات کی اتنی زیادہ اہمیت نہیں کیونکہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم اشرف المخلوقات تھے اور خدا کے نزدیک تا روز قیامت اولین وآخرین کے مقابلے میں آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کا مقام سب سے زیادہ معزز و مکرم تھا_
دوسری طرف سے ہجرت کی دشواریوں کے فوراً بعد ان کرامات کا ظہور اس حقیقت کی تائید کرتا ہے (جس کا ہم پہلے بھی ذکر کرچکے ہیں اور وہ یہ) کہ ہجرت کا عمل معجزانہ طریقے سے بھی انجام پاسکتا تھا لیکن اللہ کی منشا بس یہی ہے کہ سارے امور عام اسباب کے تحت انجام پذیر ہوں تاکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشکلات زندگی سے نبرد آزما ہونے اور دعوت الی اللہ کی سنگین ذمہ داریوں کو( تمام تر سختیوں، مصائب اور کٹھن مراحل میں)بطور احسن نبھانے کے حوالے سے ہر شخص کیلئے نمونہ عمل اور اسوہ حسنہ قرار پائیں_ علاوہ ازیں یہ امر انسان کی تربیت اور اس کو تدریجاً معاشرے کا ایک فعال، تعمیری اور مفید عنصر بنانے کے عمل میں بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے تاکہ وہ انسان فقط طفیلی یا دوسرے کے رحم وکرم پرہی اکتفا کرنے والا نہ بنا رہے _ان کے علاوہ دیگر فوائد ونتائج بھی ہیں جنہیں گزشتہ عرائض کی روشنی میں معلوم کیا جاسکتا ہے_
امیرالمؤمنینعليهالسلام کی ہجرت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سفر ہجرت جاری رکھا یہاں تک کہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم مدینہ کے قریب پہنچے_ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم سب سے پہلے قبا میں عمرو بن عوف کے گھر تشریف لے گئے_ حضرت ابوبکر نے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم سے مدینہ میں داخل ہونے کی درخواست کی اور اس پر اصرار کیا_ لیکن آپصلىاللهعليهوآلهوسلم نے انکار کرتے ہوئے فرمایا:'' میں داخل مدینہ نہیں ہوں گا جب تک میری ماں کا بیٹا اور میرا بھائی نیز میری بیٹی( یعنی حضرت علیعليهالسلام اور حضرت فاطمہعليهالسلام ) پہنچ نہ جائیں''_(۱)
___________________
۱_ الفصول المہمة (ابن صباغ مالکی) ص ۳۵ (یہاں نام لئے بغیر ذکر ہوا ہے) امالی شیخ طوسی ج ۲ ص ۸۳ نیز اعلام الوری ص ۶۶ بحار ج ۱۹ ص ۶۴، ۱۰۶، ۱۱۵، ۱۱۶ و ۷۵ اور ۷۶ و ج۲۲ ص ۳۶۶ از الخرائج و الجرائح_