سے بھی مکمل ہم آہنگ ہے_ اسی طرح یہ الفاظ آیت میں حکم انذارسے بھی پوری طرح مرتبط ہیںکیونکہ ہر تحریک کا پہلا قدم ''انذار'' ہی ہوتا ہے جس طرح کہ ہم نے یہ بات پہلے بھی کئی مرتبہ ذکر کی ہے_
ح_ بشارت و انذار
عظیم محقق شہید شیخ مرتضی مطہری کہتے ہیں: ''جو شخص یہ چاہتا ہو کہ کسی فرد کو کسی کام پر آمادہ کرے تو اس کے دو طریقے ہیں ایک بشارت و حوصلہ افزائی اور اس کام کے فوائد کو بیان کرنا اور دوسرا اس کام کے ترک کرنے پر جو برے نتائج ہیں ان سے ڈرانا''_
اسی لئے کہا گیا ہے کہ انذار پیچھے سے حیوان کو ہانکنے کی طرح اور بشارت و تشویق آگے سے کھینچنے کی طرح ہے_
قرآن و اسلام کی نظر میں انسان ان دونوں باتوں کا ایک ساتھ محتاج ہے_ ان میں سے فقط ایک کافی نہیں بلکہ اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ بشارت اور تشویق کے پلڑے کو انذاز و تخویف کے پلڑے پر بھاری ہونا چاہئے اسی لئے قرآن کی اکثر آیات میں بشارت کو انذار پر مقدم کیاگیا ہے_
چنانچہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ نے بھی معاذ بن جبل کو یمن بھیجتے وقت فرمایا ''یسر ولاتعسر وبشر ولاتنفر'' (آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرو نہ کہ کاموں کو مشکل بنانے کی نیز لوگوں کو راضی رکھنے کی کوشش کرو نہ کہ دور کرنے کی)_
آپصلىاللهعليهوآلهوسلم نے یہاں انذار و تخویف کی نفی نہیں کی بلکہ یہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کی حکمت عملی کا حصہ تھا _ہاں آپصلىاللهعليهوآلهوسلم نے تشویق کے پہلو کو زیادہ اہمیت دی کیونکہ اس پہلو سے اسلام کی معنویت اور خوبیوں کا بہتر ادراک ہوسکتا تھا_
علاوہ بریں اس طرح لوگوں کا قبول اسلام مکمل رضا و رغبت کے ساتھ عمل میں آتا_ رہا آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کا ''لاتنفر'' فرمانا تو اس کی وجہ واضح ہے کیونکہ انسان کی روح نہایت لطیفہے اور بہت جلد ردعمل کا اظہار کرتی ہے_ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم نے ہمیں اس وقت عبادت کرنے کا حکم دیا ہے جب دلی رغبت موجود ہو_