حلّیت غنا کے دلائل
گانے بجانے اور رقص کرنے کی حلیت پر مذکورہ باتوں کے علاوہ درج ذیل امور سے استدلال کیا گیا ہے:
۱_حلبی نے ابوبشیر سے نقل کیا ہے کہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم خدا اور حضرت ابوبکر حبشیوں کے پاس سے گزرے جبکہ کھیل اور رقص میں مصروف تھے اور کہہ رہے تھے: ''یا ایہا الضیف المعرج طارقاً'' (اے رات کے وقت آنے والے مہمان)_
(حلبی) کہتا ہے: ''آپصلىاللهعليهوآلهوسلم نے انہیں منع نہیں کیا اور ہمارے فقہاء نے رقص کے جواز پر اسی سے استدلال کیا ہے جو اشکال سے خالی ہے کیونکہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم خدا کے سامنے دف کے ساتھ یا اس کے بغیر خوبصورت آوازوں کے ساتھ اشعار گائے جانے کے بارے میں صحیح اور متواتر اخبار موجود ہیں_ انہی روایات کی رو سے ہمارے فقیہوں نے دف بجانے کی حلیت پر استدلال کیا ہے اگرچہ گھونگھرؤوں کے ساتھ ہی کیوں نہ ہوں''_(۱)
۲_ برید ہ سے مروی ہے کہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم خدا کسی جنگ کیلئے شہر سے خارج ہوئے_ جب آپصلىاللهعليهوآلهوسلم واپس تشریف لائے تو سیاہ رنگ کی ایک لونڈی آئی اور بولی:'' میں نے نذرکی ہے کہ اگر اللہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کو صحیح وسالم واپس لوٹائے تو میں آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کے سامنے دف بجاؤں گی اور گاؤں گی'' آپصلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا:'' اگر تونے نذر کی تھی تو پھر دف بجاؤ وگرنہ نہیں''_ چنانچہ وہ دف بجانے لگی اس دوران حضرت ابوبکر آئے اس کے بعد حضرت علیعليهالسلام آئے جبکہ وہ دف بجا رہی تھی پھر حضرت عثمان آئے جبکہ ابھی وہ کنیز دف بجانے میں مشغول تھی اس کے بعد حضرت عمر داخل ہوئے پس اس کنیز نے دف کو اپنے سرین کے نیچے رکھا اور خود اس کے اوپر بیٹھ گئی_ چنانچہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ نے فرمایا:'' اے عمر شیطان تجھ سے ڈرتا ہے وہ گارہی تھی حالانکہ میں بیٹھا ہوا تھا پھر ابوبکر آیا
___________________
۱_ سیرت حلبی ج۲ ص۶۲_