4%

دباؤ یا ناقابل برداشت امور پر زبردستی کی صورت میں نفس اس چیز کو قبول نہیں کرتا_ سہولت اور آسانی پر مبنی اسلامی شریعت میں اس کی بہت ساری مثالیں مل سکتی ہیں_(۱)

مذکورہ بیانات کی روشنی میں ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے اپنے رشتہ داروں کو جو دعوت دی تھی اس میں آپ نے ہر چند ابتدا تخویف و انذار سے کی تھی لیکن کیوں تشویق کے پہلوکو بھی مدنظر رکھا اور فرمایا :'' جو میری کی مدد کرے گا وہ میرےبعد میرا خلیفہ ہوگا'' اور یہ ذکرکیاکہ میں دنیا و آخرت کی جملہ خوبیاں لے کر ان کے پاس آیا ہوں_ اس لئے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ طرز عمل ان لوگوں کی اندرونی خواہشات اور رغبتوں سے ہم آہنگ تھا_ اور یہ پیشکش اس ذات کی جانب سے تھی جسے کسی بھی صورت میں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا_

ط_ میرا بھائی اور میرا وصی

یہاں پر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ ارشاد کہ وہ شخص میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ ہوگا، بھی قابل توجہ ہے کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یہ الفاظ اس الفت و محبت کی شدت کو خوب واضح کرتے ہیں جو آپ کی حمایت ونصرت کرنے والے فرد سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تھی _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنا بھائی قرار دیا گویا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس شخص کی نسبت حاکم و محکوم اور بڑے اور چھوٹے مرتبے والے کی سی نہ تھی بلکہ ان دونوں کا باہمی تعلق دو ہم مرتبہ انسانوں کا اور تعمیری مقاصد میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر مبنی تھا_ جس طرح ایک بھائی کا تعلق دوسرے بھائی سے ہوتا ہے محبت اعتماد اور خلوص سے لبریز_

فاصدع بما تؤمر

جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے قریبی رشتہ داروں پر اتمام حجت کرچکے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کا مسئلہ مکہ میں معروف ہوچکا تو قریش نے مسئلے کی سنگینی اور اس کے جوانب کا ادراک کرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مذاق اڑانے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

___________________

۱_ رجوع کریں: روزنامہ جمہوری اسلامی (فارسی) شمارہ ۲۵۴سال ۱۳۵۹ ہجری شمسی_ مقالات مطہریا_