کریں گے یہاں تک کہ کوئی ایک فریق ہلاک ہوجائے_ اس دھمکی کے بعد وہ چلے گئے_
حضرت ابوطالب نے حضورصلىاللهعليهوآلهوسلم کو اس بات کی اطلاع دی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے اور ان کے اوپر رحم کھائیں اور ناقابل برداشت بوجھ نہ ڈالیں حضورصلىاللهعليهوآلهوسلم نے سوچاکہ چچا کا ارادہ بدل چکا ہے اور وہ آپ کی نصرت و حمایت کی طاقت نہیں رکھتے چنانچہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا:'' اے چچا خدا کی قسم اگر وہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تاکہ میں اس امر سے دست بردار ہوجاؤں پھر بھی میں ہرگز باز نہیں آؤں گا یہاں تک کہ خدا اپنے دین کوغالب کر دے یا میں اس دین کی راہ میں قتل ہوجاؤں'' یہ دیکھ کر حضرت ابوطالب نے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کی حمایت کا وعدہ کیا_
تیسرا مرحلہ:
اس دفعہ قریش نے حضرت ابوطالب کویہ پیشکش کی کہ وہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ کی جگہ عمارة بن ولید کو اپنا بیٹا بنالیں اور نبی اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم کو( جن کے بارے میں قریش کا خیال تھا کہ انہوں نے ابوطالب اور ان کے آباء و اجداد کے دین کی مخالفت کی تھی، مشرکین میں اختلاف ڈالا تھا اور ان کی آرزوؤں کو پامال کیا تھا) ان کے حوالے کر دیں تاکہ وہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کو قتل کریں_ تو اس طرح سے آدمی کا بدلہ آدمی سے ہوجائے گا _
حضرت ابوطالب نے کہا:'' خدا کی قسم تم نے میرے ساتھ نہایت برا سودا کرنے کا ارادہ کیا ہے_ تم چاہتے ہو کہ اپنا بیٹاپلنے کے لئے میرے حوالے کرو اوراس کے بدلے میں میں اپنا بیٹا قتل ہونے کے لئے تمہارے حوالے کردوں _خدا کی قسم ایسا کبھی نہیں ہوسکتا''_
یہ سن کر مطعم بن عدی نے کہا:'' اے ابوطالب اللہ کی قسم تیری قوم نے تیرے ساتھ انصاف کیا ہے انہوں نے اس چیز (افتراق و انتشار) سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جوتجھے بھی نا پسند ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تو ان کی کوئی بات قبول نہیں کرنا چاہتا''_ حضرت ابوطالب نے کہا:'' واللہ انہوں نے تومیرے ساتھ نا انصافی کی ہے لیکن تونے مجھے بے یار ومددگار بنانے اور لوگوں کو میرے مقابلے میں لاکھڑا