4%

کرنے کا ارادہ کیا ہے_ پس تیری جو مرضی ہو وہ کر کے دیکھ لے''_ حضرت ابوطالب کی اس بات کے بعد معاملہ بگڑ گیا مخالفت کا بازار گرم ہوگیا اور لوگوں نے کھلم کھلا دشمنی شروع کردی_

ممکن ہے کہ یہ مراحل اسی ترتیب سے واقع ہوئے ہوں اور ممکن ہے کہ یہ ترتیب نہ رہی ہو_ بہرحال ہم نے جو کچھ کہا وہ ہمارے نزدیک بلا کم و کاست حالات و واقعات کے(۱) طبیعی سفر کی ایک تصویر کشی تھی البتہ اس گفتگو کے سلسلے کو جاری رکھنے سے قبل درج ذیل نکات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں_

الف: اس ناکامی کے بعد

ہم نے ملاحظہ کیا کہ مشرکین مکہ نے شروع شروع میں یہ کوشش کی کہ وہ حضرت ابوطالب اور بنی ہاشم کے ساتھ نہ الجھیں_ چنانچہ انہوں نے خود حضرت ابوطالب کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے موقف سے ہٹائیں اور اس چیز کا خاتمہ کریں جسے وہ اپنے لئے مشکلات اور خطرات کا سرچشمہ سمجھتے تھے_ انہوں نے ابوطالب کو بھڑکانے اور انہیں اپنے بھتیجے کے خلاف یہ سمجھاکر اکسانے کی کوشش کی کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پیغام ان کے مفادات کے منافی اور دیگر لوگوں کے علاوہ خود حضرت ابوطالب کی ہمدردی و شفقت کو زک پہنچانے کے مترادف ہے_

اس بناپر طبیعی تھا کہ خود حضرت ابوطالب اپنے بھتیجے کی سرگرمیاں محدود کرتے_ اور قریش کو اس مسئلے سے نجات دلاتے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت ابوطالب نے ان کی بے سروپا باتوں کو تسلیم نہیں کیا اور ان کی ذات اور مفادات کو درپیش خطرات کی روک تھام کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا تو وہ دھمکی دینے پر اترآئے _ اس کے بعد انہوں نے مکروفریب اور دھوکے کی سیاست اپنائی( جیساکہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برائے قتل ان کے حوالے کرنے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بدلے عمارة بن ولید کو بطورفرزند، حضرت ابوطالب کے حوالے کرنے کی کوشش سے ظاہر ہوتا ہے)اس واقعے نے ان کے دلوں میں پوشیدہ مقصد کو بھی ظاہر کر دیا _ نیز حضرت ابوطالب اور

___________________

۱_ رجوع کریں: سیرت ابن ہشام ج۱ ص۲۸۲،۲۸۶نیز البدء والتاریخ ج۴ص ۴۷،۱۴۹ نیز تاریخ طبری ج ۲ ص ۶۵،۶۸_