دیگر لوگوں کیلئے واضح ہوا کہ ان کا مقصد دین حق کومٹانے اور نورالہی کو بجھانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں_ اس امرنے حضرت ابوطالب کو دین حق اور پیغمبراسلام کی حمایت پر مزید کمربستہ کر دیا_
ب: قریش کی ہٹ دھرمی کا راز
مشرکین مکہ کی ہٹ دھرمی اور نور الہی کو بجھانے کی کوششوں کا راز درج ذیل امور میں مضمر معلوم ہوتا ہے:
۱)قریش ،مکہ اور دوسرے مقامات کے غریبوں، غلاموں اور کمزوروں سے اپنے مفادات کے حصول کیلئے کام لیتے تھے_ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم خدا نے آکران بیچارے لوگوں کے اندر ایک تازہ روح پھونکی_ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم نے انسانی عظمت اور حریت کے تصور کو واضح کرنے کی کوشش شروع کی اورساتھ ساتھ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم ان کی دستگیری کرتے اور مسائل و مشکلات زندگی میں ان کے مددگار ہوتے تھے_ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم ان کی حقیقت خودان کیلئے آشکارکرتے تھے اور اسلامی تعلیمات سے ان کو بہرہ ور فرماتے تھے _ان تعلیمات کی ابتدائی باتوں میں سے ایک، ان ظالموں کے تسلط اور ظلم سے رہائی کی ضرورت کا مسئلہ بھی تھا_
۲)کفار مکہ، رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ کی تبلیغ اور اس کے مقاصد کو دیکھ کر یہ اندازہ کرچکے تھے کہ وہ اس دین کے زیر سایہ اپنے ناجائز امتیازات کو برقرار نہیں رکھ سکتے جنہیں ان ظالموں نے اپنے لئے مخصوص کررکھا تھا اور رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ انہیں رد کر ر ہے تھے_ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم تاکید فرماتے تھے کہ خدا کی عدالت میں سب لوگ مساوی ہیں اس کے علاوہ یہ مشرکین، دین اسلام کے سائے تلے اپنی غیراخلاقی اور غیر انسانی اطوار کو برقرار نہیں رکھ سکتے تھے کیونکہ اسلام مکارم اخلاق کی تکمیل کیلئے آیا تھا اور یہ لوگ اپنے رسوم کے زبردست پابند تھے حتی کہ اپنے ان معبودوں کی عبادت سے بھی زیادہ پابند رسوم تھے جن کی نگہبانی کے وہ دعویدار تھے_ چنانچہ ایک دفعہ ایک عرب نے بھوک لگنے پر اپنے اس خدا کو کھالیا جسے اس نے کھجوروں سے تیار کیاہوا تھا_
۳)تیسرے سبب کی طرف قرآن نے یوں اشارہ کیا ہے( وقالوا ان نتبع الهدی معک نتخطف من ارضنا ) (۱) یعنی اگر ہم تمہارے ساتھ ایمان لے آئیں تو اپنی سرزمین سے اچک لئے جائیں گے،