مذاکرات کی ناکامی کے بعد
مذاکرات کی ناکامی کے بعدحضرت ابوطالب سمجھ گئے تھےکہ اب معاملہ سنگین صورت اختیار کرچکا ہے اور مشرکین سے کھلی جنگ کا مرحلہ قریب ہے لہذا حضرت ابوطالب نے حفظ ماتقدم کے طورپر بنی ہاشم اور بنی مطلّب سب کو جمع کیا اور ان کو رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ کی حمایت و حفاظت کرنے کی دعوت دی تو ابولہب ملعون کے سوا انہوں نے مثبت جواب دیااور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کی حمایت کیلئے آمادہ ہوگئے _
خدانے بھی اپنے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم کی حفاظت کی اور مشرکین آپ کا بال بھی بیکا نہ کرسکے ہاں وہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کو مجنون، ساحر، کاہن، اور شاعر کہہ کرپکارتے ر ہے لیکن قرآن ان لوگوں کو جھٹلاتا رہا اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم راہ حق پرقائم ر ہے مشرکین کی افتراپردازیاں آپ کو خفیہ و اعلانیہ دعوت حق دینے سے کبھی نہ روک سکیں_
درحقیقت جب مشرکین نے دیکھا کہ حضورصلىاللهعليهوآلهوسلم کی ذات کو ضرر پہنچانے کا نتیجہ مسلح جھڑپ ہوگا جس کیلئے وہ آمادہ نہ تھے اور خاص کر بنی ہاشم کے روابط اور قبائل کے ساتھ ان کے معاہدوں مثلاً مطیبین کے معاہدہ اور جناب عبدالمطلب کے ساتھ مکہ کے نواح میں رہنے والے قبیلہ خزاعہ کے معاہدے کو دیکھتے ہوئے انہیں یہ بھی یقیننہ تھا کہ اس جھڑپ کا نتیجہ ان کے حق میں نکلے گا_ بلکہ اگر یہ جنگ چھڑتی تو ممکن تھا کہ اس سے حضرت محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم کو اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو تیز کرنے کا موقع ملتا_(۱) توان تمام باتوں کے پیش نظر مشرکین نے بہتر یہ سمجھا کہ جنگ سے بچا جائے اور محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم کو کمزور بنانے اور اس کی تبلیغ کا مقابلہ کرنے کیلئے دیگر طریقوں سے کام لیا جائے_
چنانچہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مشرکین:
الف : لوگوں کو نبی اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم سے ملنے اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کی زبانی آیات قرآن سننے سے منع کرتے تھے جیساکہ
___________________
۱_ بعض محققین کا خیال ہے کہ شاید حضرت ابوطالب نے کبھی نرمی اور کبھی سختی برتنے کی روش اسلئے اختیار کی تاکہ اس قسم کی ایک جنگ چھڑ جائے جس سے نبی کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم کو اپنا پیغام پھیلانے کا بہتر موقع مل جائے_