کے شر سے دور رہنے کے لئے بطور تقیہ ایسی بات کہنی پڑتی ہے _ اگر تم حضرتعليهالسلام کی فضیلت بیان کرنا بھی چاہتے ہو تو اپنے ساتھیوں کے درمیان اور اپنے گھروں میں چھپ کر کرو ...''(۱)
۱۶_ ابن سلام کہتا ہے :'' رسول کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم نے مجھے نماز کو وقت پر پڑھنے کا اور پھر بطور نافلہ ان حکام کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا جو نماز کو تاخیر کے ساتھ پڑھتے ہیں''(۲)
۱۷_ خدری نے یہ تصریح کی ہے کہ حضرت علیعليهالسلام کے متعلق اپنے موقف میں وہ تقیہ سے کام لیتا تھا_ تا کہ بنی امیہ سے اس کی جان بچی رہے اور اس نے آیت( ادفع بالتی هی احسن السیئة ) سے استدلال کیا ہے(۳) اسی طرح بیاضی کی '' الصراط المستقیم'' ج ۳ ص ۲۷ تا ۷۳ میں ایسے کوئی واقعات ذکر ہوئے ہیں وہ بھی ملاحظہ فرمائیں_
بہرحال اس مسئلے کی تحقیق کیلئے کافی وقت کی ضرورت ہے یہاں جتنا عرض کیا گیا ہے شاید کافی ہو_
تقیہ ایک فطری، عقلی، دینی اور اخلاقی ضرورت
تقیہ کا جواز اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ اسلام ایک جامع اور لچک دار دین ہے اور ہر قسم کے حالات سے عہدہ برا ہوسکتا ہے_ اگر اسلام خشک اور غیرلچک دار ہوتا یااس میں نئے حالات وواقعات سے ہم آہنگ ہونے کی گنجائشے نہ ہوتی تو لازمی طورپر نت نئے واقعات سے ٹکراکر پاش پاش ہوجاتا _بنابریں خدانے تقیہ کو جائز قرار دیکر مشکل اور سنگین حالات میں اپنے مشن کی حفاظت اس مشن کے پاسبان (رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم ) کی حفاظت کے ذریعے کی_ اس کی بہترین مثال خفیہ تبلیغ کا وہ دور ہے جس میں حضور اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کے اصحاب، بعثت کے ابتدائی دور سے گزرے_
جب دین کے لئے قربانی دینے کا نہ صرف کوئی فائدہ نہ ہو بلکہ دین کے ایک وفادار سپاہی کو ضائع کرنے
___________________
۱_ تاریخ الامم و الملوک ج ۴ ص ۱۲_
۲_ تہذیب تاریخ دمش ج ۶ ص ۲۰۵_
۳_ سلیم بن قیس ص ۵۳ مطبوعہ مؤسسہ البعثة قم ایران_