9%

راہ حل کی تلاش:

قریش نے ان مسلمانوں کو ستانے کا سلسلہ جاری رکھا جن کی حمایت کرنے والا کوئی قبیلہ نہ تھا_ مسلمانوں کیلئے یونہی بیٹھے رہنا ممکن نہ تھا_ان ستم زدہ لوگوں کیلئے ایک ایسی سرزمین کی ضرورت تھی جو ان کی امیدوں کا مرکزہوتی، ان کو مشکلات کامقابلہ کرنے میں مدد دیتی اور جہاں وہ مشرکین کی طرف سے قسم قسم کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے زیادہ قابل بن سکتے_ یوں وہ ان مشرکین کا مقابلہ کرسکتے تھے جنہوں نے اپنے خداؤں سے ما فوق خدا اور اپنی حاکمیت سے برتر حاکمیت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا_ نیز اطاعت وتسلیم کے بجائے ہٹ دھرمی اور عناد کی روش اپنائی تھی_

دوسری طرف سے اس پر مشقت و پرآلام صورتحال پر باقی رہنے کی صورت میں قبول اسلام کی جانب لوگوں کی رغبت میں کمی آجاتی کیونکہ اسلام قبول کرنے کا نتیجہ خوف، دہشت اور تکالیف وآلام میں مبتلا ہونے کے علاوہ کچھ نہیں دکھائی دیتا تھا_

تیسرا پہلو یہ کہ قریش کے تکبر اور ان کی خود پسندانہ طاقت پر کم از کم نفسیاتی طور پر ایسی کاری ضرب لگانے کی ضرورت تھی ، کہ وہ سمجھ جا ئیں کہ دین کا مسئلہ ان کے تصورات اور ان کی طاقت کی حدود سے مافوق چیز ہے اور ان کو زیادہ سنجیدہ ہوکر سوچنے کی ضرورت ہے_

ان حقائق کے پیش نظر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا_ ہجرت حبشہ بعثت کے پانچویں سال ہوئی لیکن حاکم نیشابوری کے مطابق ہجرت حبشہ جناب ابوطالب کی وفات کے بعد ہوئی(۱)

___________________

۱_ مستدرک حاکم ج۲ص ۶۲۲_