بہادر ہیں یا سخی ہیں _ کیونکہ یہ بات اس شہر میں کافروں، منافقوں ، بزدلوں یابخیلوں کے وجود سے مانع نہیں ہے _ اور واضح سی بات ہے کہ اگر مسلمان کسی ایسے ملک کی طرف ہجرت کرتے جہاں فطرت کی بالادستی نہ ہوتی اور وہاں کا فرمانروا ظلم سے پرہیز نہ کرتا تو وہاں بھی ان کے لئے زندگی مشکل ہوجاتی اور ان کی ہجرت کا کوئی زیادہ فائدہ اور بہتر اثر نہ ہوتا_
حبشہ کا سفر
مسلمانوں نے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ کے حکم سے حبشہ کی طرف ہجرت کی، حضرت ام سلمہ سے منقول ایک روایت کے مطابق وہ مختلف گروہوں کی شکل میں وہاں گئے(۱) کہتے ہیں کہ پہلے دس مردوں اور چارعورتوں نے عثمان بن مظعون کی سرکردگی میں ہجرت کی(۲) اس کے بعد دیگر مسلمان بھی چلے گئے یہاں تک کہ بچوں کے علاوہ کل بیاسی مرداور اگر حضرت عمار یاسر بھی ان میں شامل ہوں تو تراسی مرد اور انیس عورتیں حبشہ پہنچ گئے_
لیکن ہم صرف ایک ہی مرتبہ کی ہجرت کے قائل ہیں جس میںسب نے حضرت جعفر بن ابوطالب کی سرکردگی میں حبشہ کی طرف ایک ساتھ ہجرت کی تھی _اس قافلے میں حضرت جعفر طیارعليهالسلام کے علاوہ بنی ہاشم میں سے کوئی نہ تھا _البتہ ممکن ہے کہ مکہ سے نکلتے وقت احتیاط کے پیش نظر افراد مختلف گروہوں کی شکل میں خارج ہوئے ہوں لیکن ہجرت ایک ہی مرتبہ ہوئی تھی کیونکہ شاہ حبشہ کے نام رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم اللہ کاخط بھی اسی بات کی گواہی دیتا ہے جسے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم نے عمروبن امیہ الضمری کے ساتھ روانہ کیا تھا ، اس خط میں مکتوب ہے:
'' البتہ میں نے آپ کی طرف اپنے چچا زاد بھائی جعفر بن ابوطالب کو مسلمانوں کے ایک گروہ کے
___________________
۱_ السیرة النبویة (ابن کثیر) ج ۲ص ۱۷، البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۲ تاریخ الخمیس ج ۱ص ۲۹۰ ازالصفوة و المنتہی_
۲_ سیرة ابن ہشام ج ۱ص ۳۴۵، سیرة النبویة (ابن کثیر) ج ۲ص ۵، البدایہ و النہایة ج ۳ص ۶۷، السیرة الحلبیة ہ ج ۱ص ۳۲۴ (جس میں کہا گیا ہے کہ ابن محدث نے بھی اپنی کتاب میں اس بات کی تصریح کی ہے) نیز تاریخ الخمیس ج ۱ص ۲۸۸_