نہایت خطرناک تھا_ یہ حقیقت قریش کو صبر وحوصلے اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کرتی تھی، خصوصاً ان حالات میں جبکہ شیخ الابطح حضرت ابوطالبعليهالسلام کی حمایت اور ابولہب ملعون کے علاوہ دیگر ہاشمیوں کی حمایت کی بنا پر وہ حضورصلىاللهعليهوآلهوسلم کاخاتمہ کرنے یا ان کو خاموش کرنے کی تدبیر نہ کرپاتے تھے_
لہذا انہوں نے نجاشی کے پاس اپنے دو نمائندے بھیجے تاکہ وہ مہاجرین کو واپس بھیج دے لیکن انہیں ناکامی اور سیہ روئی کے ساتھ واپس ہونا پڑا _اس کے بعد قریش نے باقی ماندہ مسلمانوں پر نئے سرے سے مظالم ڈھانے کا سلسلہ شروع کیا_انہوں نے نبی اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم کو ستانے اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کا مذاق اڑانے کیلئے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم پر ساحر ومجنون اور کاہن ہونے کی تہمت لگائی نیز مختلف قسم کے نفسیاتی حربوں سے کام لینے لگے_
نجاشی کے خلاف بغاوت
حبشہ میں مسلمانوں کی موجودگی نجاشی کیلئے کئی ایک مشکلات کا سبب بنی، کیونکہ اہل حبشہ نے اس پریہ الزام لگایا کہ وہ ان کے دین سے خارج ہوگیا ہے_ یوں اس کے خلاف بغاوت ہوئی لیکن نجاشی اپنی فہم وفراست کے باعث بغاوت کی آگ بجھانے میں کامیاب رہا اور مسلمان اس کے پاس نہایت امن وسکون کی زندگی گزارتے رہے ،یہاں تک کہ وہ نبی کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم کے ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ چلے گئے (جس کا آگے چل کر تذکرہ ہوگا)_
محمد بن اسحاق نے امام جعفر صادقعليهالسلام سے اور انہوں نے اپنے والد گرامیعليهالسلام سے نقل کیا ہے کہ حبشہ والوں نے مل کر نجاشی سے کہا کہ تم ہمارے دین سے نکل گئے ہو اس طرح انہوں نے اس کے خلاف بغاوت کی_ نجاشی نے حضرت جعفر اور دیگر مہاجرین کیلئے کشتیوں کا بندوبست کیا اور کہا :'' ان میں سوار ہوجاؤ اور بدستور یہیں رہو اگر مجھے شکست ہوئی تو جہاں چاہو چلے جاؤ لیکن اگر مجھے کامیابی ہوئی تو یہیں رہو'' اس کے بعد وہ باغیوں کے پاس گیا اور ان سے بحث کی ،نتیجتاً وہ متفرق ہوکر چلے گئے_(۱)
___________________
۱_ سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۶۵و البدایة و النہایة ج۳ص ۷۷و سیرت حلبی ج ۲ص ۲۰۲_