یہی وجہ ہے کہ حضرت حمزہ نے جہنی کی وساطت اور ثالثی کو قبول کرلیا تھا_ اسی طرح عبیدہ بن الحارث نے بھی اس قافلے کا پیچھا نہ کیا جو اس سے آگے نکل گیا تھا نیز قریش کے تین اور قافلے بھی بڑے آسانی اور سلامتی سے گزرگئے تھے اور مسلمان مناسب وقت پر ان تک نہ پہنچ سکے تھے_ یہاں تک کہ جنگ بدر کے موقع پر بھی مسلمان قریش کے قافلے کوپہنچ نہیں پائے تھے لیکن اس کے باوجود قریش نے ہی مسلمانوں سے جنگ کرنے کی ٹھان لی _ انشاء اللہ اس پر بعد میں گفتگو کریں گے _
پس ان سرایا کا مقصد قریش کو یہ باور کرانا تھا کہ اس علاقے میں قریش اب آزادا نہ دندناتے نہیں پھر سکتے اور نہ اب ان کا قانون چلے گا اور آج کے بعد سے شام کی طرف جانے والے تجارتی قافلوں کی امنیت بھی خطرے میں ہے اور جب تک وہ عقل اور منطق سے کام نہیں لیتے، حکمت کی سیدھی راہ اختیار نہیں کرتے نیز ظلم و تکبر اور جور وستم کار استہ ترک نہیں کردیتے تب تک ان کے ساتھ ایسا ہوتا رہے گا _ اور اب انہیں اپنا مکمل محاسبہ کرنا ہوگا تا کہ انہیں یہ یقین ہوجائے کہ اب ان کے لئے طاقت کے ساتھ اس موقف کی سرکوبی نہایت مشکل ہوگئی ہے اور اب جلد یا بدیر ان کے لئے حقیقت کے اعتراف کرنے اور حقیقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہے گا _ ور نہ دوسری صورت میں وہ خدا اور اس کے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم کو دعوت جنگ دیں گے جس کے نتیجے میں ان کا غرور اور تکبر سب کچھ خاک میں مل جائے گا _ اور ہوا بھی یہی _
بہر حال مسلمانوں نے قریش کے تجارتی قافلوں کو چھیڑنے پر اکتفا کیا اور قافلوں کو لوٹنے کی کوشش نہیں کی صرف اس لئے کہ قریش کے لئے سامنے کا ایک دروازہ کھلا رکھیں اور انہیں اس معاملے میں سوچ بچار کی مہلت دیں _ و گرنہ وہ قافلوں کو لوٹنے کا حق بھی رکھتے تھے _ کیونکہ یہ قریش سے عادلانہ اور منصفانہ بدلہ ہوتا جنہوں نے دشمنی کی ابتدا کی تھی اور ظلم اور زیادتی کی حدیں توڑدی تھیں _ بہر حال اگر مسلمانوں کو یہ لوٹنا مہنگانہ پڑتاتو اپنے حق کے حصول کی جد و جہد میں کوئی اور رکاوٹ نہیں تھی _ البتہ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ ان سرایا کا مقصد جنگ نہیں بلکہ کچھ اور تھا کیونکہ ان سرایا میں بھیجے جانے والے مسلمان جنگجوؤں کی تعداد کم