4%

(قریشیو) خدا کی قسم تم یہ جھوٹ کہتے ہو کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک تر لقمہ ہے _ کیونکہ ہم اس کی حمایت میں تیروں تلواروں اور نیزوں سے تم سے سخت جنگ کریں گے اور اپنے بیوی ، بچوں کو بھی اس پر قربان کردیں گے اور تم ہماری لاشوں سے گذر کر ہی اس تک پہنچ سکوگے ( یعنی وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ حضرت ابوطالب نے صرف باتیں کی تھیں لیکن ہم عمل کرکے دکھا رہے ہیں _ از مترجم )''_ اس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا :'' کیاتم یہ نہیں دیکھ رہے کہ اس کا ایک بیٹا خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھوں کے سامنے بپھرے ہوئے شیر کی طرح چوکس کھڑا ہے اور دوسرا بیٹا حبشہ کی سرزمین میں خدا کی راہ میں جہاد میں مصروف ہے؟ '' _ اس نے عرض کیا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حالت میں بھی مجھے ڈانٹ رہے ہیں؟ '' _ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' میں تم پر ناراض نہیں ہو الیکن تم نے میرے پیارے چچا کا نام لیا تو مجھے اس کی یاد ستانے لگی ''(۱) _

اس روایت کے آخری حصے کو چھوڑ کر بہت سے مؤرخین نے اس روایت کو نقل کیا ہے _ مؤرخین یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ آیت ان چھ مذکورہ افراد کے بارے میں نازل ہوئی( هذان خصمان اختصموا فی ربهم فالذین کفروا قطعت لهم ثیاب من نار ) ترجمہ : '' یہ دونوں متحارب (گروہ ) اپنے اپنے رب کی خاطر لڑ رہے تھے اور کافروں کے لئے جہنم کی آگ کے کپڑے تیار ہو چکے ہیں''_ اور بخاری میں مذکور ہے کہ ابوذر قسم اٹھا کر کہتا تھا کہ یہ آیت انہی مذکورہ افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے(۲) _نیز حضرت علیعليه‌السلام ،جناب حمزہ اور عبیدہ کے بارے میں یہ آیت بھی نازل ہوئی( من المومنین رجال صدقوا

____________________

۱) تفسیر قمی ج ۱ ص ۲۶۵، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۵۵ البتہ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۸۰ میں ہے کہ اس دن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے عبیدہ اور ابوطالبعليه‌السلام دونوں کے لئے مغفرت طلب فرمائی _ نیز الغدیر ج ۷ ص ۳۱۶ _ لیکن نسب قریش مصعب زبیری ص ۹۴ میں یوں آیا ہے کہ عبیدہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کیا : '' یا رسول اللہ کاش ابوطالب آج زندہ ہوتے تو اپنے ان اشعار کا مصداق اور تعبیر دیکھ لیتے ...''_ بسا اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ عبیدہ کے ادب اور اخلاص سے یہی بات زیادہ سازگار ہے _ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ گذشتہ بات بھی اس کے ادب اور خلوص کے منافی نہیں ہے اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو دین کی راہ میں جان قربان کئے ہوئے دیکھ رہا تھا، اس بنا پر اس کی مذکورہ بات میں کوئی حرج نہیں تھا _(۲) بخاری مطبوعہ میمینہ ج ۳ ص ۴ ، المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۱۸ از مسلم البتہ ابوذر کی قسم کے بغیر ، مستدرک حاکم ج ۲ ص ۳۸۶ اور اسی نے اور ذہبی نے اس کی تخلیص میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ، الغدیر ج ۷ ص ۲۰۲از تفسیر ابن کثیر ج۳ ص ۲۱۲ ، تفسیر ابن جزی ج ۳ ص ۳۸ ، تفسیر خازن ج ۳ ص ۶۹۸ ، تفسیر قرطبی ج ۲ ص ۲۵_ ۲۶ ، صحیح مسلم ج ۲ ص ۵۵۰ و طبقات ابن سعد ص ۵۱۸ اور ابن عباس ، ابن خیثم ، قیس بن عباد ، ثوری ، اعمش ، سعید بن جبیر اور عطاء سے بھی یہی منقول ہے_