دوسر ی فصل
اخلاق ،قرآن کی روشنی میں
خُلُق:( انّ هٰذا الا خُلُق الاولین ) (۱)
یعنی بے شک یہ راستہ وہی پہلے والوں کا راستہ ہے، آیۂ کریمہ میں خُلُق سے مراد راستہ لیا گیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ لوگ ،گذرے ہوئے لوگوں کی سیرت پر چل رہے ہیں۔
خُلُق:( وانک لعلیٰ خُلُق عظیم ) (۲)
رسول اسلام (ص) سے خطاب کیا جارہا ہے کہ اے میرے حبیب! آپ خلق عظیم پر فائز ہیں، اس آیت میں خلق سے مراد ''اخلاق اور حسن سیرت'' کو لیا گیا ہے۔
خَلاق:( .........فأستمتعوا بخلاقهم فأستمتعتم بخلاقکم کما استمتع الذین من قبلکم بخلٰقهم .........) (۳)
منافقوں سے خطاب کرکے کہا جارہا ہے کہ تم ویسے ہی لوگ ہو جیسے تمھارے بزرگ تھے (اور راہ نفاق پر گامزن تھے بلکہ) وہ تم سے زیادہ طاقتور تھے اور ان کے پاس دولت وثروت اور اولاد بھی زیادہ تھی(لیکن) انھوں نے بے جا (ھواوھوس) میں صرف کیا اور تم بھی انھیں کی راہ پر چل دیئے، ان لوگوں نے مومنین کا مضحکہ کیا اور تم بھی مومنین کو مضحکہ کی آماجگاہ گردانتے ہو، نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا وآخرت میں ان کے اعمال برباد ہو گئے (یعنی ان کے اعمال نے انھیں نہ تو دنیا میں کوئی فائدہ پہونچایا اور نہ ہی آخرت میں) اور وہ لوگ خسارہ میں ہیں۔
____________________
(۱)سورۂ شعراء/ ۱۳۷
(۲)سورۂ قلم/۴
(۳)سورۂ توبہ/۶۹