25%

آپ (ص) نے فرمایا: '' کتنی برکت تھی ان بارہ درہموں میں کہ دو برہنہ تن انسانوں کو لباس پہنا دیا اور ایک کنیز کو آزاد کردیا''(۱) دور حاضر میں ناممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے کہ کوئی عہدہ دار ایسی صفات کاحامل ہو، جن صفات سے نبی اکرم (ص) مزین تھے، دور حاضر تو کیا خود حضور (ص) کے دور میں، اگر چراغ لے کر بھی تلاش کیا جائے تو ان صفات کا پایا جانا دشوار ہے، آپ (ص) کے دور میں تو بعض بدو عرب کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو بہت کچھ سمجھتے تھے، واقعاَ اگر آج کے امراء ورئوسا بھی اس سیرت کو اپنائیں تو ہماری کشتی حیات(دین کے مطابق) منزل مقصود سے ہمکنار ہوجائے۔

۲۔ آنحضرت کی سیرت میں مہمان نوازی

جناب سلمان فارسی ـ فرماتے ہیں: ''میں ایک روز حضرت (ص) کی خدمت میں پہونچا، جو تکیہ آپ (ص) خود رکھے ہوئے تھے وہ مجھے دیدیا تاکہ میں کمر لگاکر آرام سے بیٹھ سکوں'' ایسا سلوک صرف سلمان فارسی کے ساتھ ہی نہیں کیا بلکہ ہر مہمان کے ساتھ آپ (ص) کا یہی برتائو رہتا تھا، آپ (ص) مہانوں کی خاطر اپنا بستر بچھادیا کرتے تھے اور دسترخوان سے اس وقت تک نہیں اٹھتے تھے جب تک کہ مہمان ہاتھ نہ روک لیں(۲) ایک روز حضور (ص) کی خدمت میں آپ (ص)کے دو رضاعی بھائی بہن یکے بعد دیگرے آئے، آپ (ص) نے بہن کا حترام زیادہ کیا اور بھائی کا احترام کم کیا، بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو آپ (ص) نے جواب میں فرمایا: ''چونکہ، جتنا احترام اپنے ماں باپ کا یہ بہن کرتی ہے اتنا احترام بھائی نہیں کرتا لہٰذا میں بھی بہن کا زیادہ احترام کرتا ہوں''(۳) کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ مہمان حضرات، کھانا کھانے کے بعد وہیں بیٹھ جاتے تھے اور گفتگو میں مشغول ہوجاتے تھے اور آپ (ص) مہمانوں کے احترام میں بیٹھے رہتے تھے جب اس عمل کی تکرا ر ہوئی تو آیت نا زل ہوئی( فأذا طعمتم فانتشروا ولا مستانسین لحدیث ) (۴)

____________________

(۱)بحار الانوار:ج۱۶،ص۲۱۵۔ سیرۂ پیامبر اکرم (ص) : ص۲۵

(۴)سورۂ احزاب/۵۳

(۲)سنن النبی (ص):ص۵۳،۶۷

(۳) بحار الانوار:ج۱۶،ص۲۸۱