50%

آٹھویں فصل

۱۔ ذات رسول اسلام (ص)، درس عبرت

جس وقت جنگ حنین کے مال غنیمت کو حضور (ص)کی خدمت میں پیش کیا گیا تو حضور (ص) نے ایک ایک کو آواز دی کہ فلاں آئے اور سو اونٹ لے جائے، فلاں آئے تین سو اونٹ لے جائے، فلاں آئے اتنے اونٹ لے جائے فلاں اتنے اونٹ لے جائے اتنے اتنے وغیرہ.....حالانکہ آپ (ص) اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ سب کافر ہیں، جب حضور (ص) کے مقدس صحابہ نے دیکھا کہ مال غنیمت ختم ہوگیا، ہمارے لئے تو کچھ بچا ہی نہیں تو فوراَ کھڑے ہو گئے..... یا رسول اللہ (ص)! آخر ہمارے پاس کیا بچا ؟ آپ نے تمام مال کافروں کو دیدیا؟ آپ (ص) نے فرمایا ''کیا تمھیں یہ پسند نہیں کہ اونٹوں کی جگہ پر میں خود تمھارے ساتھ ہوں؟(۱)

یہ تھی حضور (ص) کی سیرت کہ کفار میں مال غنیمت تقسیم فرما رہے ہیں اور ادھر صحابہ کا امتحان بھی ہو رہا ہے کہ آخر یہ لوگ کتنے پانی میں ہیں، حضور (ص) کا سوال کرنا بتا رہا ہے کہ اصحاب کا تمام ہم وغم صرف وصرف دنیا کے لئے تھا اور بس......

۲۔ حضور اکرم (ص) کی سیرت میں عدالت

سرکار رسالت مآب (ص) اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام میں رونق افروز منبر ہوئے اور فرمایا کہ جس شخص کا بھی حق میری گردن پر باقی ہو وہ بلا جھجک طلب کر سکتا ہے، تمام مجمع پر خاموشی حاکم تھی ،اسی اثناء میں ایک بدو عرب محفل سے کھڑا ہوا جس کا نام تاریخ نے ''اسودہ بن قیس'' تحریر کیا ہے، کہتا ہے یا رسول اللہ (ص)! آپ کے اوپر میرا ایک حق ہے، سوال کیا کون سا حق؟

جواب دیا کہ آپ جنگ طائف میں تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے ایک تازیانہ میری پشت پر ماردیا تھا، آپ (ص) نے فرمایا ''آئو قصاص لے لو''

____________________

(۱)صحیفۂ امام خمینی: ج۳،ص۲۴۸