بلکہ تم نے مجھے چھوڑ نے اور مجھ پر کامیاب ہونے کا راستہ اختیار کیا ہے ۔ اس پر ان لوگوں نے کہا: اب آپ جو چاہیں سو کریں۔( ۱ )
ابو طالب کی ان باتوں سے قریش کو یہ یقین ہو گیا کہ وہ ابو طالب کو اس بات پر راضی نہیں کرپائیں گے کہ وہ رسول(ص) کو چھوڑ کر الگ ہو جائیں، دوسری طرف جب ابو طالب نے قریش کی نیت خراب دیکھی تو انہوں نے ان سے بچنے کی تدبیر سوچی تاکہ بھتیجے پر آنچ نہ آئے اور ان کی رسالت کی تبلیغ متاثر نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے بنی ہاشم اور اولادِ عبد المطلب سے فرمایا کہ محمد(ص) سے خبردار رہنا دیکھو ان پرآنچ نہ آئے ، ابو طالب کی اس بات پر ابولہب کے علاوہ سب نے لبیک کہا ابو طالب نے بنی ہاشم کے اس موقف کو بہت سراہا، بنی(ص) کی حفاظت و حمایت کرنے کے سلسلہ میں انہیں شجاعت دلائی۔( ۲ )
قریش کا موقف
بعثت کے چار سال پورے ہو گئے کہ اس عرصہ میں قرآن مجید کی بہت سی آیتیں نازل ہو چکی تھیں ان میں عظمتِ توحید اور خدا کی وحدانیت کی طرف دعوت، اعجاز بلاغت اور مخالفوں کے لئے دھمکیاںتھیں یہ آیتیںمومنوںکے دلوں میں راسخ اور ان کی زبان پر جاری تھیں، دور و نزدیک سے لوگ انہیں سننے کے لئے آتے تھے۔
تبلیغ ِ رسالت کو روکنے کے لئے قریش نے ابھی تک جتنے حربے استعمال کئے تھے وہ سب ناکام ہو چکے تھے، انہوں نے رسول(ص) کو سلطنت و بادشاہت کی لالچ دینے، بے پناہ مال سے نوازنے ، اپنا سردار بنانے کی پیش کش کی لیکن وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوئے تو انہوں نے تبلیغِ رسالت کو روکنے کے لئے متعدد حربے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔ چونکہ فصیح و بلیغ کلام کا دلوں پر گہر ا اثر ہوتا ہے اس لئے قریش نے پہلا قدم تویہ اٹھایا کہ رسول(ص) کو عام لوگوں سے نہ ملنے دیا جائے، اس طرح وہ ان کے سامنے اسلام پیش نہیں کر سکیں گے ۔ اور جو لوگ مکہ میں آتے ہیں انہیں قرآن کی آیتیں نہ سننے دی جائیں، اس کے علاوہ انہوںنے آپ(ص)
____________________
۱۔ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۰۹، سیرت نبویہ ج۱ ص ۲۸۶۔
۲۔ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۱۰، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۲۶۹۔