سیاسی پہلو
۱۔مسلمانوں کا ایک ایسا متحدہ محاذ قائم کیا جو رسول(ص) و رسالت کے احکام پر ایک فرد کی طرح لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتا رہے وہ بھی ایسے حالات میں کہ جب مختلف سمتوں سے مخالفت اور سازشوں کا سلسلہ جاری تھا ۔
۲۔انصار و مہاجرین کے درمیان تنظیمی علوم و اخبار، استقامت و ثبات کے وسائل، ایمانی تجربہ اور تحرک کے طریقوں کی ترویج کی کیونکہ انصار، مہاجرین کے تجربوں اور ان آزمائشوں سے واقف نہیں تھے جن کا انہیں سامنا نہیں ہوا تھا۔
۳۔ حکومت کی تشکیل اور اس کے ادارتی دھانچے کے لئے پہلے قدم کے طور پر افراد کی تعلیم و تربیت کی۔
۴۔مسلمانوں میں اسلام کے اقدار کے مطابق نسلی و خاندانی حمیت سے الگ رہتے ہوئے اپنے اندر دفاع کی روح پھونکی۔
۴۔معاہدۂ مدینہ
مسلمانوں کو جنگ و جدال کی حالت سے نکال کر تعمیری اور شریعت اسلامیہ کے مطابق ڈھالنے کے لئے ضروری تھا کہ امن و سکون کی فضا قائم ہو -خواہ یہ امن و سکون نسبی ہی ہو-اس لئے خلفشار و نزاع ،عام لوگوں میں انتشار کا سبب تھا۔
یثرب میں بہت سی طاقتیں مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے در پے تھیں، اقتصادی اور سیاسی جوڑ توڑ کے لحاظ سے یہودی بہت مضبوط تھے اگر چہ ان کی تعداد قابل اعتناء نہیں تھی۔ دوسری طاقت مشرکوں کی تھی اگر چہ رسول(ص) اور مہاجرین کے آجانے سے ان کی طاقت کم ہو گئی تھی لیکن ان کا بالکل صفایا نہیں ہوا تھا لہذا نبی(ص) نے ان سے شائستہ طریقہ سے مقابلہ کیا۔
نبی(ص) کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ آپ منافقوں پر نظر رکھیں۔
مدینہ کے باہر قریش اور دوسرے مشرک قبیلے نئے اسلامی نظام کے لئے حقیقی خطرہ بنے ہوئے تھے رسول(ص) کے لئے لازمی تھا کہ آپ(ص) ان سے مقابلہ اور ان کے شر کو دفع کرنے کے لئے تیار رہیں۔