6%

۶۔ تحویلِ قبلہ

جب تک رسول(ص) مکہ میں تھے تو بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے ہجرت کے بعد بھی آپ(ص) سترہ ماہ تک بیت المقدس ہی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے اس کے بعد خدا نے آپ(ص) کو یہ حکم دیا کہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں۔

دین اسلام سے یہودیوں کی دشمنی اور زیادہ بڑھ گئی وہ رسول(ص) اور رسالت کا مذاق اڑانے لگے پہلے تو وہ یہ فخر کرتے تھے کہ مسلمان یہودیوں کے قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں، اس سے رسول(ص) کو تکلیف ہوتی تھی لہذا تحویلِ قبلہ کے سلسلہ میں رسول(ص) کو وحی کا انتظار تھا ایک رات کا واقعہ ہے کہ رسول(ص) گھر سے نکلے اور آسمان کی وسعتوں کا جائزہ لیتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی،ظہر کا وقت آ یا تو آپ(ص) مسجد بنی سالم میں نمازِ ظہرمیں مصروف ہوئے دو رکعت پڑھ چکے تھے کہ جبریل نازل ہوئے اور آپ کے دونوں شانوں کو پکڑ کر کعبہ کی طرف موڑ دیا اور آپ(ص) کو خدا کا یہ قول سنایا:

( قد نریٰ تقلب وجهک فی السّماء فلنولّینّک قبلةً ترضاها فولِّ وجهک شطر المسجد الحرام ) ( ۱ )

ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کی توجہ آسمان کی طرف ہے تو ہم آپ کا رخ اس قبلہ کی طرف موڑ دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں لہذا اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیجئے ۔

تحویل قبلہ ایک لحاظ سے مسلمانوں کا بھی امتحان تھا تاکہ معلوم ہو جائے کہ وہ حکم رسول(ص) کی کس حد تک اطاعت کرتے ہیں اوردوسری طرف یہودیوں کے عناد و استہزاء کے لئے چیلنج تھا اور ان کے مکرکا جواب تھا اور ایک مسلمان کے لئے یہ نیا راستہ تھا۔

____________________

۱۔بقرہ:۱۴۴۔