6%

۷۔ فوجی کاروایوں کی ابتدائ

طاقت ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ لوگوں پر حکومت کی جاتی ہے اور اسی کے وسیلہ سے ان کی قیاد ت کی جاتی ہے ۔ انہیں حالات میں -جب رسول(ص) مدینہ میںمقیم ہو گئے تو-آپ(ص) نے اور مسلمانوں نے یہ طے کیا کہ جزیرہ نما عرب بلکہ اس کے باہر کی طاقتوں -جیسے روم و فارس-کو یہ جتا دیا جائے کہ تبلیغِ رسالت اور آسمانی قوانین کے مطابق ایک تہذیب قائم کرنے کے لئے جد و جہد کا سلسلہ جاری رہے گا ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا اس کام کو انجام نہیں دے سکتا تھا کیونکہ ان کا ایک محکم عقیدہ تھا اور ان کی ایک آزاد فکر تھی وہ حق و عدل کے طالب تھے وہ امن و امان قائم کرنے والے اور صاحب شمشیر و مرد میدان تھے۔

رسول(ص) کو یہ اندیشہ تھا کہ قریش اور آپ(ص) سے عداوت رکھنے والے ،مسلمانوں کو تباہ کرنے کی کوشش کریں گے خواہ کچھ مدت کے بعد ہی کریں۔ چنانچہ آپ(ص) نے عقبہ ثانیہ کی بیعت میں انصار سے یہ مطالبہ کیا کہ اگر قریش ظلم و تعدی کریں یا رسول(ص) اور مسلمانوں پر چڑھائی کریں تو تمہیں میری مدد کرنا ہوگی۔ مکہ میںمسلمانوں کی ملکیت ضبط کر لی گئی تھی اور ان کے گھروںکو لوٹ لیا گیا تھا۔رسول(ص) اور مسلمانوں-خصوصاً مہاجرین-کی یہی خواہش تھی کہ قریش اپنی خوشی سے اسلام میں داخل ہو جائیں یا کم از کم انہیں ان کی گمراہی پر نہ چلنے دیا جائے۔

اسی بنا پر رسول(ص) نے چھوٹے چھوٹے دستے بھیجے تاکہ وہ اپنی خود مختاری(مستقل وجود)اور کسی کی تا بعداری نہ کرنے کا اعلان کریں جب ہم ان دستوں کے افراد کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہو تا ہے وہ صرف ساٹھ آدمی تھے اور سب مہاجر تھے ان میں وہ انصار شامل نہیں تھے جنہوں نے رسول(ص) کی مدد اورآپ(ص) کی طرف سے جنگ کرنے کے لئے بیعت کی تھی، یہ لوگ جنگ کے طلبگار بھی نہیں تھے یہ دستے صرف قریش پر اقتصادی دبائو ڈالنے کا وسیلہ تھے( ۱ ) ہو سکتا ہے اس طرح وہ کھلے کان اور دل سے حق کی آواز سن لیں یا مسلمانوں سے صلح کرلیں اور ان سے چھیڑچھاڑ نہ کریں تاکہ دوسرے علاقوں میں بھی اسلام پھیل جائے۔ اسی کے ساتھ یہود

____________________

۱۔ اس لئے کہ(قریش کے پاس) پیسہ تجارت کے ذریعہ آتا تھا اوران قافلوں کے ذریعے جس کی آمدو رفت مکہ ، شام اور یمن سے ہوتی تھی۔