دوسری فصل
نئی حکومت کے نظام کا دفاع
۱۔ غزوۂ بدر
جنگ کے بارے میں حکمِ خدا کے نازل ہونے سے امت مسلمہ کفر و ضلالت سے ٹکرائو والے مرحلہ سے نکل کر دوسرے مرحلہ میں داخل ہو گئی اور مسلمانوں کے دلوں میں اپنے ان حقوق کو واپس لینے کا جذبہ پیدا ہوا جو غصب کر لئے گئے تھے، ان حقوق کو قریش نے صرف اس لئے غصب کر لیا تھا کہ یہ لوگ خدائے واحد پر ایمان لے آئے تھے۔
غزوہ ذو العشیرہ میں نبی (ص) قریش کے اس قافلہ کی گھات میں تھے جو شام جا رہا تھا اس وقت آپ (ص) معمولی ، ہلکے پھلکے اسلحے اور مختصر تعداد کے ساتھ نکلے تھے، امید یہی تھی کہ اس قافلہ سے ٹکرائو ہوگا جس میں اکثرتجّار مکّہ تھے۔ رسول(ص) کا یہ اقدام مخفیانہ نہیں تھا لہذا اس کی خبر مکہ پہنچ گئی اور وہاں سے قافلہ کے سربراہ ابو سفیان تک پہنچی چنانچہ اس نے اپنا راستہ بدل دیا تا کہ مسلمانوں کے ہاتھ نہ لگے ادھر قریش اپنے مال کے تحفظ اور مسلمانوں کی عداوت میں مکہ سے نکل پڑے مگر ان کے بزرگوں نے غور و فکر سے کام لیا اور یہ طے کیا کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کے لئے نہیں جائیں گے خصوصاً یہ ارادہ اس وقت بالکل ترک کر دیا جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ابو سفیان اپنے تجارتی قافلہ سمیت بچ نکلا ہے ۔
قریش تقریباً ایک ہزار سپاہیوں اور بھاری اسلحہ کے ساتھ نکلے تھے جس سے ان کا مقصدتکبر اور عربوں کے درمیان اپنی حیثیت کا اظہار واضح تھا، ان کی نصرت کے لئے کچھ دوسرے قبیلے بھی جمع ہو گئے تھے جو مسلمانوں سے اس لئے جنگ کرنا چاہتے تھے تاکہ مسلمان یہ سمجھ لیں کہ وہ تنہا نہیں ہیںکیونکہ قریش عزت پانے کے بعد ابھی تک ذلیل نہیں ہوئے تھے۔