ذریت میں برکت عطا کر اور انہیں ائمہ قرار دے جو تیرے حکم سے تیری اطاعت کی طرف ہدایت کریں اور اس چیز کا حکم دیں جس سے تو خوش ہو۔
نیز یہ دعا کی :''یا ربِّ انک لم تبعث نبیاً الا و قد جعلت له عترة اللّهم فاجعل عترت الهادیة من علی و فاطمة''
پروردگار! تونے کوئی نبی(ص) نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کے لئے عترت قرار دیا ، میری عترت کو علی و فاطمہ (ص) کی نسل سے قرار دے اس کے بعد فرمایا:''طهر کما اللّٰه و نسلکما انا سلم لمن سالمکما و حرب لمن حاربکما ۔( ۱ )
خدا تم دونوںکو اور تمہاری نسل کو پاک رکھے۔ میں اس سے صلح کرونگاجس نے تم سے صلح کی اور اس سے جنگ کرونگا جس نے تم سے جنگ کی۔
۳۔یہود اور بنی قینقاع سے ٹکرائو
مدینہ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے یہودی اپنے تئیں خطرہ محسوس کر رہے تھے، نیا نظام مضبوط و مستحکم ہو گیا۔امت مسلمہ اتنی طاقت بن گئی کہ حکومت کی زمام سنبھال سکتی ہے۔ بدر سے پہلے کا معاہدۂ صلح و امان کاضامن تھا جس کے سبب ٹکرائو اور تنائو نہیں ہوتا تھا لیکن مسلمانوں کی فتح کی وجہ سے یہودیوں کے دلوں میں دشمنی اور شر پیدا ہو گیا اور انہوں نے منافقانہ چال چلنا شروع کر دی، وہ مسلمانوں کی مذمت اور ان کے خلاف سازش کے جال بننے لگے اور نئے مذہب و نئی حکومت والے مسلمانوں کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کرنے لگے۔
ان کی خبریں رسول(ص) سے مخفی نہیں تھیں۔ دوسری طرف مسلمانوں کے دلوں میں رسول(ص) اور اسلام کے دفاع کا جذبہ موجزن تھا چنانچہ جب سالم بن عمیر نے- جو کہ ایک فدائی مسلمان تھے-بنی عوف کے مشرک ابو عفک
____________________
۱۔کشف الغمہ ج۱ ص ۳۶۲، مناقب ال ابی طالب ج۳ ص ۳۵۵۔