13%

ساتھ نکلے اور ۱۵ دن تک ان کے گھروں کا محاصرہ کئے رہے ۔ اس مدت میں نہ ان میں سے کوئی نکلا اور نہ کوئی ان کے پاس گیا آخر کار وہ سب رسول(ص) کے حکم کے سامنے جھک گئے اور مال و اسلحہ چھوڑ کر مدینہ سے چلے گئے اس طرح مدینہ شرپسندعناصر سے پاک ہو گیا اور شہر میں سیاسی امن و امان قائم ہو گیااسی کے ساتھ وہاں سے غیر مسلموں کا رسوخ ختم ہو گیا، کیونکہ وہ مسلمانوں کی طاقت، ان کے ادارتی نظم و نسق، ترقی اوراس اسلامی حکومت کے استقلال کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے جو کہ ایک حکیم و دانا کے دستورکے مطابق چل رہی تھی۔

۴۔ مسلمانوں کی فتح کے بعد قریش کا رد عمل

ابو سفیان نے قریش کے کچھ بہادروں کو جمع کیا اور انہیں مدینہ کی طرف لے گیا، ان کی غلط خواہشیں انہیں مسلمانوں سے جنگ اور قریش کی عظمت کو واپس لوٹانے پر اکسارہی تھیں جو کہ بدر میں ہاتھ سے چلی گئی تھی۔ مدینہ کے قریب انہیں زمین پر فساد برپا کیا اور پھر اس خوف سے بھاگ کھڑے ہوئے کہ کہیں مسلمانوں کی تلواریں نہ ٹوٹ پڑیں۔

نبی(ص) نے مسلمانوں کے ساتھ مشرکین کا تعاقب کیا انہیں ان کے دین کی محبت ایسا کرنے پر مجبور کر رہی تھی تاکہ یہ ثابت ہو جائے کہ وہ نئی حکومت کے اقتدار کا دفاع اور بد خواہوں سے اس کی حفاظت کرتے ہیں...۔

مشرکین نے فرار کرنے میں ہر چیز سے مدد لی یہاں تک کہ انہوں نے اپنے بوجھ (سویق) کو بھی پھینک دیا جو ان کے کھانے کے کام آ سکتا تھا وہ ستو مسلمانوں کے ہاتھ آیا اسی لئے اس غزوہ کو غزوہ سویق کہا جاتا ہے۔ قریش نے ایک مرتبہ پھر رسوائی و ذلت کا منہ دیکھا اور جن قبیلوں تک اس واقعہ کی خبرپہنچی ان پر یہ بات ثابت ہو گئی کہ اسلام کی طاقت ایک منظم طاقت ہے اور اب ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ۔ اس مرحلہ پر رسول(ص) کے لئے اہم کام یہ تھا کہ مدینہ میں مسلمان معاشرہ کے لئے امن و امان فراہم کریںاور ہر ممکنہ خطرہ کا سد باب کریں۔ بعض قبیلے اسلام قبول کرنے پر تیار نہیں تھے