6%

۷۔ غزوۂ بنی نضیر( ۱ )

مسلمانوں پر پے در پے مصائب پڑ رہے تھے یہاں تک منافقین اور یہودیوںپر بھی یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ مسلمانوں کی ہیبت ختم ہو گئی ہے رسول(ص) نے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کے تحت بنی نضیر کے یہودیوں سے معاملات صحیح رکھنے کا ارادہ کیا اور ان دونوں مقتولوں کی دیت دینے میں ان سے مدد طلب کی۔ اسی اثناء میں یہودیوں نے آپ(ص) کو اپنے محلہ میں دیکھا آپ(ص) کے ساتھ کچھ مسلمان بھی تھے انہوںنے آپ(ص) کو خوش آمدید کہا ان کا ارادہ نیک نہیں تھا انہوں نے کہا تشریف رکھئے تاکہ آپ(ص) کا مطالبہ پورا کر دیا جائے۔ آپ ان کے گھر کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ یہودیوں نے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ سوچا کہ پتھر گرا کر آپ(ص) کو قتل کر دیں۔ اتنے میں آپ(ص) پر وحی نازل ہوئی او ر آپ(ص) کو ان کے منصوبہ سے خبر دار کیا آپ(ص) صحابہ کو وہیں چھوڑکر ان کے درمیان سے نکل آئے۔ اس صورت حال سے بنی نضیر کو پریشانی لاحق ہوئی انہیں اس بات پر حیرت ہوئی اوراپنی کارستانی پر بہت پشیمان ہوئے۔ وہاں سے صحابہ بھی جلدی سے مسجد میں رسول(ص) کے پاس پہنچ گئے، تاکہ آپ(ص) کے لوٹنے کا راز معلوم ہو جائے۔ رسول(ص) نے فرمایا:''همّت الیهود بالغدر بی فاخبرنی اللّه بذالک فقمت'' ۔( ۲ )

یہودیوں نے مجھے دھوکے سے نقصان پہنچا نا چاہا لیکن میرے خدا نے مجھے آگاہ کر دیا۔

چونکہ یہودیوں نے رسول(ص) سے کئے ہوئے عہد کو توڑ دیا تھا اس لئے خدا نے ان کے خون کو مباح کر دیا۔ انہوںنے دھوکا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لہذا مدینہ سے جلا وطنی کے علاوہ ان کے لئے اور کوئی چارہ نہیں تھامنافقین کے سردار عبد اللہ بن ابی وغیرہ نے بنی نضیر سے کہا: تم رسول(ص) کے حکم کو تسلیم نہ کرو بلکہ ان کا مقابلہ کرو، میں اور میری جماعت تمہاری مدد کرے گی تمہیں تنہا نہیں چھوڑا جائیگا۔ بنی نضیر اپنے قلعوں میں رسول(ص) کے حکم کو ماننے یا نہ ماننے کے سلسلہ میں متردد تھے۔

____________________

۱۔غزوۂ بنینضیر ماہ ربیع الاول ۴ھ میںہوا۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۵۷، متاع الاسماع ج۱ ص ۱۸۷۔