13%

رسول(ص) کو منافقین کی ریشہ دوانیوں کی خبر ہوئی توآپ(ص) نے مدینہ میں ابن ام مکتوم کو چھوڑ ااور بنی نضیر کا محاصرہ کرنے کے لئے روانہ ہوئے اور ان کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہوئے کہا کہ وہ سپر انداختہ ہو جائیں اور ذلت کے ساتھ صرف اتنا مال و اسباب لیکر مدینہ سے چلے جائیں جتنا ان کے اونٹ لے جا سکیں۔( ۱ )

مسلمانوں کو بہت سا مال و اسلحہ غنیمت میں ملا، رسول(ص) نے مسلمانوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے یہ بات رکھی کہ یہ مال غنیمت مہاجرین کو دیدئے جائیں تاکہ انہیں اقتصادی خود مختاری حاصل ہو جائے اور انصار میں سے سہل بن دجانہ اور ان کے والد دجانہ کو بھی دیدیا جائے -یہ دونوں انصار میں زیادہ غریب تھے۔ چنانچہ نبی (ص) نے اس غنیمت میں سے ان کو بھی عطا کیا۔( ۲ )

۸۔احد کے بعد فوجی حملے

مدینہ کی فضا سازگاراور پر امن ہو گئی لیکن منافقین اپنی غداریوں کے انکشاف کی وجہ سے پریشان تھے اور انہیں یہ یقین ہو گیا تھا کہ آنے والے زمانہ میں ان کی خبر لی جائے گی، اسی دوران رسول(ص) کو یہ اطلاع ملی کہ بنی غطفان مدینہ پر چڑھائی کرنے کی تیاری کر رہے ہیں لہذا رسول(ص) اور مسلمانوں نے ان کے مقابلہ میںجانے کے لئے جلدی کی جب دشمن سے ان کا سامنا ہوا تو دیکھا کہ وہ مقابلہ کے لئے پوری طرح تیار ہے یہ بھی تیار ہو گئے جس سے دونوں ایک دوسرے سے مرعوب ہو گئے، اور جنگ و قتال کی نوبت نہیں آئی، اس غزوہ میں رسول(ص) نے نمازِ خوف پڑھی تھی تاکہ مسلمانوں کو یہ سکھایا جائے کہ دشمن سے چند لمحوں کے لئے بھی غفلت نہیں کی جا سکتی ۔ مختصر یہ کہ مسلمان بغیر جنگ کئے مدینہ واپس آ گئے( ۳ ) اس غزوہ کو، ذات الرقاع بھی کہتے ہیں۔

بدرِ موعد(بدر الصغریٰ)

مسلمانوں کی تنگی کا زمانہ تیزی سے گذر رہا تھا۔ اب انہیں فن حرب و ضرب- یعنی جنگی امور-میں کافی

____________________

۱۔ سورۂ حشر میں بنی نضیر کی جلا وطنی بیان ہوئی ہے ۔

۲۔ ارشاد ص ۷۴۔

۳۔سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۰۴۔